غزل – بستیاں ہوگئیں ویران کہاں جائیں گے

بستیاں ہوگئیں ویران کہاں جائیں گے
سب لیے بیٹھے ہیں طوفان کہاں جائیں گے

شاخ گل جس پہ نشیمن تھا وہی ٹوٹ گئی
ہوگئے بے سروسامان کہاں جائیں گے

اے غم دل، ہے کیوں آمادہ، جدا کرنے پر
اشک ہیں آنکھ کے مہمان کہاں جائیں گے

سوچیے جانے سے پہلے کہ اگر ختم ہوا
لوٹ کر آنے کا امکان کہاں جائیں گے

دوڑتی بھاگتی سڑکوں کا ہے یہ شہر، یہاں
ہے کوئی جان نہ پہچان کہاں جائیں گے

عالم تشنہ لبی قید میں دریائے فرات
اور لہو مانگتا میدان کہاں جائیں گے

ہے کھنڈر عظمت رفتہ کا یہ دنیا اشہرؔ
اب تو رہتے نہیں انسان کہاں جائیں گے