کئی چاند تھے سرآسماں : ایک مطالعہ

4234 مربع کلو میٹر پر محیط،4.5 ملین سے زائد آبادی پر مشتمل، گھاگھرا اور گومتی ندی کے درمیانی حصہ پر آباد ضلع اعظم گڑھ اردو فکشن کی ثروت مند روایت کا ہمیشہ سے امین رہا ہے۔ ضلع کے جن اساطین علم نے اردو فکشن کے افق کو اپنی فکری فطانت، تخلیقی سرگرمیوں اور فنی مہارت سے روشن کیا ہے ان میں ایک ممتاز نام شمس الرحمان فاروقی کا ہے۔ جن کی شخصیت، تبحر علمی اور ادبی سرگرمیوں کا ہر ذی علم وفہم معترف ہے۔ فاروقی نے دنیائے علم وادب بالخصوص اردو زبان وادب کے ضمن میں جو اعلیٰ وارفع اور کثیر الجہات خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ آپ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، محقق اور ماہر نقاد ہیں، نیز لغت نویسی، داستان، عروض اور ترجمہ وغیرہ کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ بقول محمد عمر میمن:’’تبحر علمی، منطقی استدلال، تحریر کے ارتکاز اور موضوع کے عین قلب میں ایک بے پناہ قوت کے ساتھ اتر جانے کے اعتبار سے فاروقی نادر روزگار ہیں‘‘۔
ان کے انداز تحریر، منطقی استدلال اور لہجے کی قطعیت ووضاحت کو دیکھتے ہوئے انھیں موجودہ دور کا حالی قرار دیا گیا ہے، چنانچہ فضیل جعفری لکھتے ہیں:’’تنقید میں شمس الرحمن فاروقی کی کاوشیں اور ان کے نتائج نہ صرف قابل تحسین بلکہ قابل صدر شک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ محمد حسن عسکری نے انھیں لکھا تھا کہ لوگ آپ کا نام حالی کے ساتھ لینے لگے ہیں یعنی یہ کہ جس طرح حالی نے اپنے زمانے میں تنقید کو چند رسوم وقیود سے نکال کر نئی آگہی بخشی، اسی طرح شمس الرحمان فاروقی میں ایک ایسا نقاد نظر آتا ہے جس نے تنقید کی ایک نئی بوطیقاترتیب دینے کی کوشش کی‘‘۔
شمس الرحمان فاروقی کسی شخص کا نہیں بلکہ تنقید نگاری کے ایک عہد کا نام ہے۔ جنھوں نے جدیدیت کے رجحانات کے فروغ کے ساتھ جدید تنقید میں روح پھونکی۔ مشرقی علوم پر کافی دسترس رکھنے کے ساتھ مغربی نظریات پر بھی ان کی نظر ہے۔ ان کے تنقیدی سرمایے پہ ایک نظر ڈالنے سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جہاں ان کے تنقیدی مراحل میں مغربیات کو زیادہ اہمیت حاصل رہی، وہیں دوسرے مرحلہ میں(1975ء کے بعد) انھوں نے مشرقی شعر یات بالخصوص کلاسیکی نظام بلاغت، عروض اور بیان کے مسائل اور ادب وتہذیب کے رشتوں کی طرف خصوصی توجہ دی۔ غالب اور میرکی با زیافت کرکے انھوں نے عملی تنقید کا بہترین نمونہ پیش کیا۔
فاروقی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے کیا، لیکن باقاعدہ آپ کی ادبی زندگی کا شمار’’شب خون‘‘ کی اشاعت (مئی1966ء) سے ہوتا ہے۔ اس کی ادارت کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سارے انتظام وانصرام آپ ہی نے سنبھال رکھے تھے۔ افسوس کہ اب یہ رسالہ اردو زبان وادب کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
بعد ازاں اردو فکشن کی طرف راغب ہوئے۔ یکے بعد دیگرے افسانے اور ناولٹ منظر عام پر آئے، تخلیقات کی اشاعت کا گراف مسلسل بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ چالیس سے زائد تصنیفات کے خالق بن گئے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق تحقیق و تنقیدسے ہے، البتہ آپ نے اپنی جنبش قلم سے ادب کی مختلف صنفوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ افسانوں کا مجموعہ ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘ گرچہ ایک ہی ہے اورشہرہ آفاق ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ بھی صرف ایک ہی ہے، مگر دونوں کی حیثیت عہد آفریں کی سی ہے۔ فاروقی کی ادبی خدمات کی وجہ سے ملک وبیرون ملک مختلف اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ معروف ترین تصنیف ’’شعر شورانگیز‘‘ جو چار جلدوں پر مشتمل ہے اس کو 1996ء میں’’سرسوتی سمان‘‘ جیسا اہم ایوارڈ ملا جسے برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ کہا جاتا ہے اور اس کتاب کی وجہ سے اے ایم یو علی گڑھ کی جانب سے آپ کو اعزازی ڈی لٹ کی ڈگری بھی عطا کی گئی۔ حکومت پاکستان نے آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے2010ء کا’’ستارہ امتیاز‘‘ ایوارڈ بھی دیا ہے جو وہاں کا دوسرا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔
آنے والی نسلیں تم پر ناز کریں گی اے لوگو
جب ان کو معلوم یہ ہوگا تم نے فراق کو دیکھا تھا
فاروقی 30ستمبر1935ء کو ضلع اعظم گڑھ کے معروف ومشہور موضع کوریا پار(موجودہ ضلع مؤ) میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا نام خلیل الرحمان اعظمی تھا۔ محکمۂ تعلیمات میں افسر تھے۔ فاروقی نے1949ء میں ہائی اسکول اور 1951ء میں انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ 1953ء میں گورکھپور سے گریجویشن (دوسال) کی ڈگری حاصل کی۔ 1955ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے(انگلش) کی تکمیل امتیازی نمبرات سے کی اور دو دو گولڈمڈل حاصل کیے۔ آپ کو انگریزی، اردو اور فارسی زبانوں پربہترین قدرت حاصل ہے اور عربی، ہندی، فرنچ زبانوں سے اچھی واقفیت ہے۔ بعدہٗ شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج میں بحیثیت لکچرر آپ کا تقرر ہوگیا۔ ابھی دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ آپ IASکے لئے منتخب ہوگئے اور ڈاک محکمہ میں اپنی خدمات انجام دیں۔ 1996ء میں بحیثیت ممبر پوسٹل سروسز بورڈ وظیفہ یاب ہوئے۔
شمس الرحمان فاروقی نے بچپن ہی سے خدمت قرطاس وقلم کو اپنا مشغلہ بنالیا تھا۔ اس وقت لکھنا شروع کردیا تھا جب درجہ ہفتم کے طالب علم تھے۔ اس وقت کے قلمی رسالہ کا نام’’گلستاں‘‘ رکھا تھا۔ ہائی اسکول تک جاتے جاتے یہ رسالہ بند ہوگیا تو دوسرے اخباروں اور رسالوں میں آپ کے مضامین اور افسانے شائع ہونے لگے۔ انٹر میڈیٹ میں داخلہ لیا تو میاں جی اسلامیہ کالج میگزین کے شعبہ انگریزی کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ اسی اثنا میں آپ جماعت اسلامی ہند کے ادبی حلقہ سے متعارف ہوئے تو تحریک ادب اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ اپنی لیاقت اور صلاحیت کی وجہ سے ادارہ ادب اسلامی گورکھپور کے معتمد بھی رہے۔ اس وقت کا معروف ادبی رسالہ’’معیار‘‘(میرٹھ) بھی آپ کی توجہ کا مرکز رہا۔ کچھ دنوں تک آپ کے مضامین یہاں بھی شائع ہوتے رہے۔ ایک مشہور ناولٹ ’’دلدل سے باہر‘‘ نومبر1951ء تا فروری1952ء تک بالاقساط شائع ہوا۔ فاروقی کی قلمی کاوشوں کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ اب بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ اردو فکشن کی دنیا میں فاروقی کی ہمہ جہت شخصیت نے ایک عظیم ناول نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت اس وقت قائم کرلی جب’’ کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ کے نام سے آپ کا ناول 2006ء میں منظرعام پر آیا۔ یہ ناول سب سے پہلے کراچی پھر الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ دوسال بعد ایک معروف ومشہور بین الاقوامی ادارہ پنگوئن بکس نے اسے شائع کردیا۔ مشہور زمانہ ناول نگار انتظار حسین نے اس ناول کو اردو ادب کی دنیا میں صرف ہلچل سے ہی تعبیر نہیں کیا ہے بلکہ اسے’’امراؤ جان ادا‘‘ جیسے شاہکار ناول کے مماثل قرار دیا ہے۔
اس ناول کا عنوان’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ شمس الرحمان فاروقی نے اپنے ایک عزیز دوست مشتاق احمد کے شعرسے مستعار لیا ہے۔ پوراشعر ملاحظہ فرمائیں ؂
کئی چاند تھے سرآسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھانہ تمہاری زلف سیاہ تھی
شمس الرحمان فاروقی کا یہ نایاب ناول اٹھارہویں صدی کے راجپوتانے سے شروع ہوکر دہلی کے لال قلعہ میں ختم ہوجاتا ہے۔ جو تقریباً ایک صدی سے کچھ زائد عرصہ پر محیط ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ہند کے اسلامی تمدن، انسانی تہذیب وادبی معاشرہ، انگریزوں کی سیاسی چپقلش، اس دور کی بدلتی ہوئی زوال پذیر تہذیب اور تاریخی پیکر کو اس ناول کا موضوع بنایا ہے۔ فاروقی نے اس ناول میں مغلیہ سلطنت کا زوال، اردو فارسی شاعری کی صورت حال، زندگی کی جذباتی وروحانی تکمیل کی تلاش، قومی یکجہتی، عشق ومحبت، فن کی تلاش، حالات کی تلخی اور بادشاہت کا خاتمہ وغیرہ کی زبردست عکاسی کی ہے نیز ہندوستانیوں کی بے بسی، انگریزوں کا ظلم وستم، حکومت وقت کے خلاف بغاوتی تیور، اپنی اناکے مجروح ہونے کا احساس اور نوآبادیاتی نظام کے منفی اثرات پر بھی مفصل روشنی ڈالی ہے۔
ناول کی کہانی کشن گڑھ کے زمیندار مہار اول گجندر پتی سنگھ کی بیٹی من موہنی کی متنازعہ تصویر سے شروع ہوتی ہے۔ مرقع نگار مخصوص اللہ اس تنازع سے اپنے وطن کو خیرآباد کہہ کر کشمیر جابسے اور وہیں پر ایک کشمیری خاتون سے شادی کرکے گزر بسر کرنے لگے۔ ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام یحییٰ بڈگامی رکھا۔ یحییٰ کے دو بیٹے داؤد اور یعقوب پیدا ہوئے۔ دونوں بیٹے فوجی تھے۔ مرہٹہ فوج اور انگریزوں کے مابین ہونے والی معرکہ آرائی میں شہید ہوگئے۔ اس شہادت سے قبل یعقوب کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوچکا تھا۔ جس کا نام یوسف تھا۔ اس حالت یتیمی میں یوسف کا سہارا اکبر بائی نامی ایک طوائف بنی جو اسے اپنے ساتھ دہلی لے کر آئی اور اپنی بیٹی اصغری سے نکاح کردیا۔ اس ازدواجی زندگی میں اللہ نے یوسف کو تین بیٹیوں سے نوازا۔ جن کا نام انوری خانم، عمدہ خانم اور وزیر خانم تھا۔’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ کا مرکزی کردار وزیر خانم ہے جو حسن وادا کی پیکر تھی۔ مزاجی نفاست، نازونخرا، ذوق وشوق اور حسن گفتار نے اس کی شخصیت کو اور پرکشش بنادیا تھا۔ وزیر کی زندگی میں یکے بعد دیگرے پانچ مرد آئے۔ پہلا مرد مارسٹن بلیک تھا۔ وہ جے پور میں کپتان کے عہدے پر فائز تھا۔ محمد یوسف سے اس کے گہرے مراسم تھے جس سے گھر پر برابر آنا جانا رہتا تھا۔ یوسف سے گفت وشنید کے بعد وہ وزیر خانم کو جے پورلے کر چلا گیا۔ جہاں دو بچوں کی پیدائش کے بعد وزیر سے نکاح کی تیاری کررہا تھا کہ ایک حادثہ میں اس کا انتقال ہوگیا۔ بلیک کی بہن نے دونوں بچوں کو اپنی کسٹڈی میں لے لیا۔ اب وزیر کی زندگی بڑے اہم اور نازک موڑپر آکر کھڑی ہو جاتی ہے، غم والم اور افسردگی کی چادر میں لپٹی وزیر خانم دہلی کا رخ کرتی ہے۔
دہلی آکر ایک اور انگریز افسر ولیم فریزر سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ ایک ظالم اور عیاش قسم کا افسر تھا۔ اس کا کردار ناول میں ایک ویلن جیسا ہے، جس کا نواب شمس الدین سے جھگڑے کے بعد قتل ہوجاتا ہے۔ نواب صاحب وزیر خانم سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے حسن ادا پر اس قدر فدا تھے کہ پھانسی پر لٹکنا منظور کرلیا لیکن پیچھے نہ ہٹے۔ یہ کردار ناول کی فضا میں موت کے بعد بھی اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ نواب شمس الدین کے انتقال کے بعد وزیر خانم رامپور چلی گئیں جہاں باقاعدہ پہلی بار نواب آغا تراب علی کے نکاح میں آئیں۔ لیکن جب بدقسمتی سا یہ کی طرح پیچھاکر رہی ہو تو وہاں انسان بے بس اور لاچار نظر آتا ہے۔ نواب آغا تراب علی بھی ایک سفر کے دوران ٹھگوں کے ہاتھوں جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ نواب کے انتقال کے بعد وہ ایک بار پھر دہلی کا رخ کرتی ہیں اور یہاں پر اس بار ان کے حسن وادا کے دیوانے مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو ہوجاتے ہیں۔ وزیر ان کے نکاح میں آجاتی ہیں۔ لیکن قلعہ معلّی بھی راس نہ آیا۔ زینت محل نے اقتدار کے ہوس میں مرزا فخروکو زہر دلوادیا۔ ابھی وزیر کے بطن سے مرزا فخرو کا ایک بیٹا پیدا ہوا ہی تھا کہ زینت محل نے اس کی قلعہ بدری کا حکم صادر فرما دیا۔ وہ وزیر جو بڑے اعتماد سے مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی عادی تھی آج پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادر میں لپٹی، سرجھکائے بیٹھی، بے بسی میں مبتلا، قلعہ معلّی سے بھی رخصت ہوگئی۔
نواب شمس الدین کے انتقال کے بعد وزیر خانم کے بطن سے جو لڑکا پیدا ہوا اس نے بعد میں داغ دہلوی کے نام سے شہرت پائی۔ داغ کے یہاں شعروشاعری اور اشعار کہنے کا ذوق انھیں اپنی ماں سے وراثت میں ملا تھا۔ داغ کی رسائی قلعہ معلّی میں اس وقت ہی ہوگئی تھی جب وزیر خانم نے اپنی شادی بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے کرلی، یہاں پر داغ کو غالب اور ذوق کی شاگردی کا موقع نصیب ہوا۔ قلعہ معلّی کے مشاعروں اور ادبی نشستوں میں غالب اور ذوق کے علاوہ خود بہادر شاہ ظفر اور دیگر شعراء میں حکیم احسن اللہ خاں، گھنشیام لال عاصی، امام بخش صہبانی، ظہیر دہلوی، مرزا فخرو، نواب یوسف علی خاں جیسی شخصیتیں اپنا جلوہ بکھیرتی تھیں۔ اس طرح کے تمام کرداروں سے فاروقی نے اس ناول کو خوب سجایا ہے اور اس وقت کی ادبی سرگرمیوں کی تصویر کشی، فریزر کے مسکن پر غالب کی شاعری، دہلی کے قہوہ خانوں میں شعر گوئی کی محفلیں، غالب وداغ کی ملاقاتوں کا ذکر اور داغ کی شعر خوانیاں اس زمانے کی ادبی زندگی کی بولتی ہوئی تصویریں ہیں جس کا مکمل ومؤثر اظہار اس ناول میں فاروقی نے کیاہے۔
کردار نگاری کی اگر بات کی جائے تو شمس الرحمان فاروقی نے اس میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ ناول کے اندر کسی طرح کا کہیں پر بھی جھول نظر نہیں آتا۔ تمام کردار جامع، متحرک اور بہترین صفات سے مزین ہیں۔ کرداروں کو دلچسپ بنانے کے لئے گرما گرم اور پھڑکتے ہوئے فقرے اور محاوروں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ تمام کرداروں کو دلکش اور پرلطف بنائے رکھنے کے لئے مرقع نگاری کا بھی خوب سہارا لیا ہے۔ مرقع نگاری اس طور سے کی ہے کہ ناول کا خاص اور اہم حصہ نظر آتا ہے۔ منظر نگاری کا خوبصورت فن بھی فاروقی کے یہاں خوب ملتا ہے، دو حصوں کا بیان، قدیم خانقاہی نظام، موسیقی کے سات سراور رنگوں کی تفصیل، دہلی کے گلی کوچوں کی چہل پہل، چائے خانوں کی رونق، نوابوں کی حویلیاں، امراء و روؤسا کے بلند وبالا محلّات، قلعہ معلّی کی فصیلیں اور اس کے اندرونی خدوخال، سیروتفریح کے واقعات اور سفر کی دشواریوں کا بیان اور منظر نگاری اس طرح سے کی ہے کہ ساری چیزیں قاری کے سامنے متحرک نظر آتی ہیں۔
واقعات نگاری میں بھی فاروقی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ناول کے سارے واقعات موتیوں کی طرح تخلیقی دھاگے میں پرودیئے ہیں خصوصاً مخصوص اللہ آرٹسٹ سے لے کر وزیر خانم کے والد یوسف تک کے تمام واقعات میں ان کا تخلیقی فن پورے شباب پر ہے۔ جزئیات نگاری کا فن بھی آپ کے یہاں خوب پایا جاتا ہے۔ عمارتوں کی تعمیر وتزئین، نقش نگاری، زیبائش وآرائش، روشنی کا انتظام، شاہی سواریاں، لباس، آلات موسیقی اور خوردنی اشیاء کا بیان اس انداز سے کیا ہے کہ اس دور کی مکمل تصویر نظروں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے۔ ناول کا پلاٹ بالکل فطری انداز میں اور پوری طرح گٹھا ہوا ہے۔ تمام واقعات کا ایک دوسرے سے ایسا ربط ضبط ہے کہ کوئی بھی امر بعید ازقیاس نہیں معلوم ہوتا۔ ناول کو اتنے سیدھے سادھے پیرائے میں بیان کیا ہے جیسے فنکار نے اپنے فن کے جادو سے سب کچھ نکھار دیا ہو۔
کسی بھی ناول کی کامیابی کی ضمانت موضوع، کردار، پلاٹ، واقعات، جزئیات اور منظر نگاری پر ہی صرف منحصر نہیں ہوتی بلکہ حسن بیان اور طرز نگارش بھی شایان شان ہونا چاہئے۔ اس ناول میں زبان وبیان کا حسن، مکالمہ کی برجستگی، واقعات اور زبان کے ہم آہنگ ہونے کا گہرا احساس ہر صفحے پر نمایاں ہے۔ فاروقی نے زبان و بیان پر کافی توجہ صرف کی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مستعمل زبان کو ہی ناول میں جگہ دی ہے جو اس عہد میں رائج تھیں۔ انھوں نے خاص طور سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ بیانیہ میں کوئی بھی ایسا لفظ نہ آنے پائے جو اس دور میں مستعمل نہ تھا۔ عربی اور فارسی کے فقروں ومحاوروں کی کثرت اس ناول میں دکھائی دیتی ہے جو اس وقت دہلی ونواح دہلی میں مستعمل تھے۔ فارسی اشعار کا مکالموں میں برمحل استعمال بھی حسن بیان کو مزید دلکشی عطا کرتا ہے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے قاری ناول کے مطالعے کے وقت کچھ زیادہ ہی لطف اندوز ہوتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا تعلق اکیسویں صدی سے ہے۔
غرضیکہ ’’کئی چاند تھے سرآسمان‘‘تاریخ، تہذیب وتمدن، شعروادب، معاشرت کے آداب، عام زندگی کی جزئیات کے سچے اور زندہ بیان کی وجہ سے اردو ادب میں صرف اپنا ایک منفرد اور نمایاں مقام بنانے میں ہی کامیاب نہیں ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک صدی سے کچھ زیادہ کی تہذیبی دستاویز بھی ہے۔