وہبہ زحیلی اور فقہ اسلامی کی تجدید

سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد ، جو بعد میں علمی ، فکری اور تہذیبی انقلابات کا پیش خیمہ بنا، تاریخ انسانی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ۔ حیات انسانی نے صدیوں کے تسلسل کے بعد ایک بڑی کروٹ لی۔ تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی طرز زندگی کو یکسر تبدیل کر دیا ۔ علوم و فنون کو نئی زندگی ملی ۔ فلسفہ کو دو بارہ ایک نئی مسند نصیب ہوئی ۔ عقل انسانی جمود و غفلت کی لمبی نیند سے بیدار ہوئی ۔ اس ہمہ گیر ترقی اور انقلاب نے زندگی کے تمام شعبوں پر اپنی چھاپ چھوڑی ۔اب زندگی کے مسائل تبدیل ہو گئے ، حالات کا رخ ماضی سے بالکل جدا ہو گیا ۔ انسانی ضرورتیں نئے لباس میں نمودار ہونے لگیں ۔ تہذیب و ثقافت میں نئے رنگ اور نئے ڈھنگ غالب ہونے لگے ۔ ایسے میں اسلام اور فقہ اسلامی کو کئی مسائل اور چیلنجز کا سامان کرنا پڑا ۔ایک طرف روز افزوں نئے سماجی ، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی مسائل اور جدیدحالات میں صحیح اسلامی رہنمائی حاصل کرنا جن کا وجود ماضی میں سرے سے تھا ہی نہیں، چنانچہ ان کی رہنمائی کے لئے موجودہ فقہ ناکافی ٹھہری ۔ دوسری طرف فقہ اسلامی میں کئی چیزیں موجودہ دور اور حالات میں ناقابل عمل اور غیر حقیقی لگنے لگیں، کچھ میں عملی نفاذ کے پہلو سے سوالات اٹھائے گئے، کچھ عقل انسانی کے خلاف یا اس کے لئے نا قابل قبول ٹھہریں ، چنا نچہ اس درمیان میں ایک عرصہ ایسا گزرا جس میں یہ مانا جانے لگا کہ دور جدید اور فقہ اسلامی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، اور اب یا تو مسلمانوں کو فقہ اسلامی کو اختیار کرنا ہوگا یا جدید حالات کو۔ جس کی بڑی مثال یورپ کے مسلمانوں کے لئے اسلام کو ناقابل عمل ٹھہرا کر ان کو واپس مشرق کی طرف آنے کی دعوت تھی، بالآخر فقہ اسلامی پر نظر ثانی یا تدوین جدید کی آوازیں اٹھیں ، جس کے نتیجے میں دو رجحان ابھر کر سامنے آئے ۔ ایک طرف حقائق سے قطع نظر ماضی کی بے انتہا محبت ، روایت پرستی اور جمود کا غلبہ تھا ، جس نے کسی بھی صورت میں موجود ہ فقہ پر نظر ثانی کرنا گوارا نہیں کیا ۔ دوسری طرف فقہ کو جدید دور کے موافق بنانے کی اس قدر لگن اور کوشش کہ ہر قدیم چیز دائرہ شک میں نظر آنے لگی اور ہر نئی چیز محبوب لگنے لگی ۔چنانچہ فقہ اسلامی یا علوم اسلامی میں زمانی طور سے قدیم وجدیدکی، دو بڑی تقسیم وجود میں آئیں۔ اب ہر میدان میں قدیم و جدید کا فرق نظر آنے لگا اور دونوں کے درمیان دوریاں بڑھتی گئیں ۔ ایسے میں ضرورت ہوئی ایسے لوگوں کی جو ماضی کے ٹھوس اصولوں اور مسلمات کی تو پاسداری کریں اور ساتھ ہی ان چیزوں پر جو حالات یا رسم و رواج کے راستے فقہ اسلامی کا حصہ سمجھی جانے لگیں یا جن کی حیثیت اصولوں پر قیاس کی یا انسانی رائے کی ہے ان پر نظر ثانی کریں اور قدیم و جدید کے درمیان صحیح اور متوازن رہنمائی پیش کریں ۔ بیسویں صدی میں کئی بڑے علماء واسکالرس نے اس طرف توجہ دی اور اپنی غیر معمولی خدمات پیش کیں۔ ان میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی اس لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کا کام اور میدان اس قدر وسیع اور پھیلا ہوا ہے کہ وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک اکیڈمی ، ایک عالم نہیں بلکہ ایک لائبریری، اور ایک محقق نہیں بلکہ قدیم و جدید فقہ و علوم اسلامی کا ایک انسائیکلو پیڈیا نظر آتے ہیں ۔ یقیناًوہ قدیم و جدید کے ایک خوبصورت سنگم ہیں۔
ڈاکٹر وہبہ زحیلی دمشق شام میں ۱۹۳۲ء میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور دمشق میں الکلیۃ الشرعیۃ سے شرعی علوم میں چھ سال کا ثانویہ کیا،اور وقت کے بڑے اور مشہور علماء سے حصول علم کا شرف حاصل کیا، جن میں علامہ مصطفی زرقاء ، ڈاکٹر مصطفی سباعی ، محمود رنکوسی ، لطفی الفیومی ، صالح فرفوراور حسن حبنکہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لئے ازہر یونیورسٹی مصر تشریف لے آئے ، یہاں آپ نے پہلی پوزیشن کے ساتھ کلیۃ الشریعۃ سے عالیۃ کی ڈگری حاصل کی اور پھر کلیۃ اللغۃ العربیۃ سے تخصص فی التدریس کیا، ہر مرحلے میں پہلی پوزیشن آپ کا امتیاز رہی ۔ یہاں بھی آپ کو بڑے بڑے نامور اساتذۂ علم و فن اور ماہرین علماء کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کا موقعہ ملا ، شیخ الازہر محمود شلتوت ، شیخ ابو زہرہ ،، عثمان المزارقی ،محمد البنا اور محمد الزفزاف کے نام خاص اہمیت کے حامل ہیں، جن میں محمود شلتوت کے افکار سے آپ کافی متأثر ہوئے ۔
علم کی تشنگی مزید بڑھ جانے اور قانون کی طرف ذہنی میلان کی وجہ سے آپ نے لاء فیکلٹی عین شمس یونیورسٹی سےLLB اور قاہرہ یونیورسٹی کی لاء فیکلٹی سے ممتاز نمبرات سے اسلامی شریعت میں PG Diplomaکی ڈگری حاصل کی اور پھر اسی فیکلٹی سے اسلامی شریعت میں آپ نے پی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی کی لجنۃ المناقشۃ نے آپ کے مقالے کو غیرملکی یونیورسٹیز کے ساتھ شیئر کرنے کی سفارش کی تھی۔ آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان’’ آثار الحرب فی الاسلام :مقارنۃ بین المذاہب الثمانیۃ و القانون الدولی‘‘ دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور بڑے بڑے علماء و مفکرین نے اسے خراج تحسین پیش کیا ۔ اپنے موضوع پر یہ کتاب سند کی حیثیت سے جانی جانے لگی، اس میں جنگ و صلح سے متعلق قدیم و جدید تمام افکار کا گہرائی کے ساتھ تقابلی مطالعہ اور معروضی جائزہ لیا گیا ہے، ساتھ ہی رائج عالمی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان جو غیر معمولی فر ق ہے وہ بھی واضح کیا گیا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے اسے اپنے موضوع پر بے مثال کتاب قرار دیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے آثار الحرب فی الاسلام میں ہمارے وسیع فقہی لٹریچر میں سے لا جواب انتخاب پیش کیا ہے اور ان چیزوں کو اس موضوع سے الگ کردیا ہے جس کی ضرورت دراصل اب دنیا کو ہے ہی نہیں اور ساتھ ہی ضرورت کی چیزوں کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کردیا گیا ہے ، ہم نے اپنی کتاب فقہ الجھاد میں اس کتاب کا کافی حوالہ دیا ہے اور اس کے اقتباسات پیش کئے ہیں ‘‘۔یہ مقالہ در حقیقت آپ کے علمی و تحقیقی سفر کی ابتداء تھی جس نے بلندی کے کئی منازل طے کئے اور کر تے چلے گئے ۔
آپ کے عملی و تدریسی دور کی ابتداء ۱۹۶۳ میں ہوئی جب آپ کو دمشق یونیورسٹی میں لکچرر شپ کے لئے منتخب کیا گیا ۔جہاں آپ نے علم و فضل کی خوب بارش کی اور پروفیسر کی حیثیت سے وہاں خدمات انجام دیتے رہے، البتہ آپ کی خدمات شام تک محدود نہ رہ کر پورے عالم اسلام کے لئے عام رہیں ۔ چنانچہ لیبیا، تیونس ، امارات ، سعودی عرب، پاکستان اور کویت تک آپ کے لکچرس اور دروس وقتا فوقتا ہوتے رہے ۔ دمشق یونیورسٹی کے علاوہ لیبیا کی محمد بن علی السنوسی یونیورسٹی، امارات کی جامعۃ الامارات ، سوڈان کی خرطوم یونیورسٹی ، ام درمان یونیورسٹی میں آپ باقاعدہ وزٹنگ لکچرر کے طور پر خدمات پیش کرتے رہے۔اس کے علاوہ عالم اسلام کے بڑے اور اہم علمی کاموں میں اپنا اہم کردار بھی ادا کرتے رہے۔ چنانچہ کہیں نصاب کمیٹی کی کار روائی میں بھر پور حصہ لیا اور کہیں انسائیکلوپیڈیا کی تیاری اور قانون سازی کے عمل میں اپنی گراں قدر خدمات پیش کیں۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کا مقام کچھ یوں ہو گیا کہ کوئی فقہی مجلس یا بحث آپ کی شرکت کے بغیر ناقص اور تشنہ لگنے لگی ۔چنانچہ عالم اسلام کی بے شمار اکیڈمیز اور سینٹرس کے آپ ممبر بنائے گئے خصوصا اکمجمع الفقہی مکۃ المکرمۃ ،مجمع الفقہ الاسلامی جدۃ،مجمع فقہاء الشریعۃ امریکہ ، فقہ اکیڈمی سوڈان ، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے علاوہ بحرین ، کویت ، اردن، لندن، دمشق ، شام کی مختلف اکیڈمیز اور سینٹر س کے فعال اور اہم ممبر رہے اور کئی جگہ صدارت کے فرائض بھی بحسن و خوبی انجام دیئے ۔
آپ کا تعارف کسی ایک مخصوص میدان یا تخصص سے جوڑ کر کرپانا مشکل بلکہ انصاف کے منافی ہے ۔ البتہ لوگوں نے آپ کی شخصیت کے تین پہلوؤں کو غیر معمولی اور نمایاں قرار دیا ہے ۔چنانچہ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو فقہ میں غیر معمولی مہارت ہے ۔ دوسرا اہم پہلو اصول فقہ پر غیر معمولی دسترس اور مہارت ہے، اور تیسراپہلو ایک مفسر قرآن کا ہے ۔البتہ آپ کی شخصیت کی جوہری خصوصیت ایک مفکر اور محقق کی ہے۔ دینی و عصری علوم میں گہری واقفیت اور اچھی دسترس رکھتے تھے۔آپ کی تصانیف کی تعداد تین سو سے اوپر ہے، اور ہر کتاب عرق ریزی اور جانفشانی کی منہ بولتی تصویر ہے۔
ڈاکٹر وہبہ زحیلی فقہ کے ایک زندہ اور جامع تصور کے حامل لوگوں میں سے تھے ، آپ نے فقہ کی رائج تعریف یعنی احکام شرعیہ عملیہ کے مجموعے کا نام فقہ ہے کے بالمقابل فقہ کی ایک وسیع اور جامع تعریف پیش کی ، الفقہ معرفۃ النفس ما لھا و ما علیھا۔ چنانچہ فقہ بعض محدود احکام و مسائل کے برخلاف زندگی کے ہر پہلو سے متعلق صحیح رہنمائی حاصل کرنے کا نام ہو گیا ۔فقہ اسلامی میں آپ کا کام کافی وسیع اور اہم ہے ۔ آپ دراصل فقہ کے باب میں تقلیدی اصلاحی نظریے کے ماننے والوں میں سمجھے جاتے ہیں جس کی داغ بیل امام محمد عبدہ کے اہم شاگردوں علامہ مصطفی المراغی اور مصطفی عبدالرزاق نے رکھی تھی ۔آپ کی فقہی اپروچ بہت ٹھوس اور ڈائنامک تھی۔ فقہ پر آپ کی متعدد کتابیں ہیں اور بعض کتابیں مختلف جگہوں پر نصاب کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ’’الوجیز فی الفقہ الاسلامی‘‘ اور’’ موسوعۃ الفقہ الاسلامی والقضایا المعاصرۃ‘‘ چودہ جلدوں میں فقہ پر جامع کتابیں مانی جاتی ہیں ۔فقہ کی تجدید کے متعلق آپ کے نزدیک شریعت کے کچھ ثوابت اور مسلمات ہیں جن کی حیثیت فریم ورک کی ہے، ان کی روشنی میں پوری فقہ کو کھنگالا جا سکتا ہے، حالات کے مطابق اس پر غور کیا جا سکتا ہے ، مقاصد شریعت کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور نئے مسائل اور حالات کے حل تلاش کئے جا سکتے ہیں ۔ چنانچہ فقہ اسلامی کے زندہ تصور اور تجدیدی کردار کی بحالی کے لئے آپ نے کئی کتابیں لکھیں جس میں ’’الفقہ الاسلامی فی اسلوبہ الجدید‘‘ خاص طور پر اہم ہے ۔ آپ کی ایک اہم تصنیف تجدید الفقہ الاسلامی بھی ہے جو دراصل فقہ المقاصد کے مشہور اسکالر جمال عطیۃ کے ساتھ آپ کے مراسلات اور تبادلہ خیالات کا مجموعہ ہے جو بہت ہی اہم اور بنیادی موضوعات پر مشتمل ہیں ۔ جس میں تجدید کے حدود ، اس کا منہج ، اس کا دائرہ اور اس کا اختیار، ان تمام چیزوں پر باریکی کے ساتھ گفتگوکی گئی ہے۔
آپ کی زندگی کا سب سے اہم کام الفقہ الاسلامی و ادلتہ نامی کتابی سلسلہ ہے جو گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ در اصل فقہ مقارن پر ایک انوکھا اور منفرد کام ہے ۔ انفرادی طور پر فقہ مقارن کے میدان میں کی جانے والی قدیم و جدید تاریخ میں یہ سب سے بڑی پیشکش، عظیم کارنامہ اور جامع ذخیرہ ہے ، اور اپنے مشمولات کے اعتبار سے یہ الموسوعۃ الفقہیۃ کویت کے بعد جو ایک پوری اکیڈمی کی محنتوں کا ثمر ہے ،فقہ مقارن کا دوسرا سب سے بڑا علمی ذخیرہ مانا جاتا ہے۔ اس میں موضوعات اور مضامین کی جامعیت کے ساتھ ساتھ مسالک اور ائمہ کا بھی زبردست انداز سے احاطہ کیا گیا ہے ۔ مسالک اربعہ کے علاوہ چار دوسرے بڑے مسالک جعفریہ ، زیدیہ ، اباضیہ اور ظاہریہ اور بڑے ائمہ کی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے تقابلی مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ساتھ ہی غیر ضروری اور از کار رفتہ موضوعات سے پہلو تہی بھی کی گئی ہے ۔اس کا اہم پیغام یا محرک یہ ہے کہ فقہ در اصل آسانی کا نام ہے چنانچہ اگر کوئی تمام فقہ میں سے دلائل کے ساتھ آسان احکام تلاش کر کے لوگوں کے لئے آسانی فراہم کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ تقلید پر باقی رہتے ہوئے بھی ہم دوسری فقہوں یا مسلکوں سے استفادہ کر سکتے ہیں، البتہ مکمل تقلید سے یا فقہ سے یا ائمہ کی کوششوں سے بد ظن یا متنفر ہو جانا زیادہ خطرناک اور سنگین مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے کو اور واضح کرنے کے لئے آپ نے الگ سے ایک تفصیلی کتاب بعنوان ’’الضوابط الشرعیۃ للاخذ بالیسر‘‘ تحریر فرمائی ۔’’الفقہ الاسلامی و ادلتہ‘‘ کی اہمیت و افادیت کو دیکھتے ہوئے کئی اسلامی یونیورسٹیز نے اسے داخل نصاب کیا اور مراجع کی حیثیت دی ہے۔ اسلامی یونیورسٹی پاکستان اور سوڈان میں یہ باقاعدہ نصاب کا حصہ ہے،بلکہ فقہ مقارن میں مرجع کی حیثیت سے ہر اسلامی یونیورسٹی کی لائبریری کی زینت ہے ۔ طفیل ہاشمی، پاکستان کے قلم سے اس کا اردو ترجمہ بھی منظرعام پر آچکا ہے۔
اصول فقہ کو علماء نے علوم شرعیۃ میں سب سے اہم مقام دیا ہے بلکہ یہ علم ہی در اصل احکامات اور اس کے اصولوں کے درمیان کا راستہ ہے ۔ نصوص سے کسی مسئلہ کو تلاش کرنے کے عمل کو ہی اصول فقہ کا علم کہتے ہیں۔آپ نے بھی اس جانب پوری توجہ دی اور اصول فقہ کی معرفت کو شرعی علوم کا خلاصہ اور مغز بتایا ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں پر سخت تنقید کی ہے جو اصول فقہ میں مہارت اور گہرائی حاصل کئے بغیر دین کے معاملات میں اپنی رائے دینا شروع کردیتے ہیں ۔ اصول فقہ کی باقاعدہ فنی طور پر ابتداء امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے مانی جاتی ہے گویا اصول فقہ کی پہلی با ضابطہ بنیاد امام شافعی نے رکھی اور اس کے بعد ایک لمبے زمانے تک علماء و فقہاء ایک رائج اور تقلیدی راستے پر سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ علامہ شاطبی نے اس میدان میں قدم رکھا اور اصول فقہ کو نئی بلندیوں اور منزلوں سے روشناس کرایا۔ نئے گوشوں کو بے نقاب کیا، اصول فقہ میں کچھ نئی بحثیں اٹھائیں اور کچھ پرانی بحثوں کو نئے پیرائے میں پیش کیا ۔مقاصد کو ایک خاص اہمیت کے ساتھ پیش کیا اوراصول فقہ کو آسان مگر بہت جامع اور مفید رنگ میں تازہ کیا ۔ نیز نئے اور جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اصول فقہ کومزید معروضی اور نتیجہ خیز بنایا۔ڈاکٹر وہبہ زحیلی کا کام اس میدان میں بھی مجمع البحرین اور پل کا ہے ۔آپ نے اس موضوع پر ایک بہترین انسائیکلوپیڈیا بعنوان ’’اصول الفقہ الاسلامی‘‘ تیار کیا جس کے مقدمے میں آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ یہ کتاب در اصل امام شاطبی اور طریقہ تقلیدیہ کے درمیان ایک نئے طرز کی کو شش ہے جس میں امام شاطبی سے تاثر ضرور ظاہر ہوگا، مگر تقلیدی اصول فقہ سے بھی پورا پورا استفادہ کیا جائے گا۔ آپ کا یہ کام کافی دقیق اور علمی کام شمار کیا جاتا ہے، یہ قدیم و جدید کو جمع کرنے کی ایک قابل قدر کوشش ہے۔ آپ کی اس مایہ ناز کتاب ’’اصول الفقہ الاسلامی‘‘ کو بھی کئی عرب یونیورسٹیز میں نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ جامعہ اسلامیۃ مدینہ اور جامعہ الامام ریاض میں یہ کتاب باقاعدہ دراسات علیا کے نصاب کا حصہ ہے ۔ ہندوستان کے کئی اداروں میں بھی اسے داخل نصاب یا مرجع کی حیثیت سے قبول کیا گیا ہے۔
تفسیر میں آپ کا کام کافی وسیع ، جامع اور منفرد انداز کا ہے ۔اس طور سے کہ آپ نے تین مختلف تفسیریں مختلف نہج اور الگ الگ اسلوب میں لکھی ہیں ۔ آپ کی کوشش یہ تھی کہ مخاطبین کے فرق مراتب اور ذہنی و فکری تفاوت کے پیش نظر الگ الگ کام کیا جائے اور لوگوں کو ان کے معیار اور سطح کے مطابق قرآن سے جوڑا اور وابستہ کیا جائے۔آپ نے تفسیر میں بھی قدیم و جدید اور مختلف تفسیری مکاتب فکر کو جمع کر کے ایک جامع اور نفع بخش تفسیر لکھنے کی کوشش کی ہے اور بڑی حد تک اب تک موجود وسیع اور بکھرے ہوئے تفسیری ذخیرے اور تراث سے اس طور سے بے نیاز کردیا ہے کہ اب تک کا تفسیری کام آپ کی تفاسیر میں جمع ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اب اصل کام اس غور و فکر کے عمل کو مزید آگے لے جانا ہے چنانچہ آپ اپنی بلند پایہ تفسیر ’’التفسیر المنیر‘‘ کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا کام در اصل لوگوں کو قرآن سے قریب کر دینا اور ان کے سامنے ایک نمونہ پیش کر دینا ہے تاکہ ہر شخص براہ راست قرآن سے وابستہ ہو اور اس کو سمجھے اور بقدر ظرف اپنا حصہ تلاش کرے ، کیونکہ اصل تفسیر تو وہی ہے جو ہر شخص قرآن سے براہ راست تعلق قائم کر نے کے نتیجے میں خود اپنے دل میں محسوس کرے۔
آپ کی سب سے ضخیم اور بلند پایہ تفسیر ’’التفسیر المنیر‘‘ ہے جو سولہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس میں آپ نے تفسیر سے متعلق تمام قدیم و جدیداہم بحثوں کو تفصیل اور گہرائی کے ساتھ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ آپ کی سب سے بلند معیار اور تفصیلی تفسیر ہے ۔ آپ کی دوسری تفسیر ’’التفسیر الوجیز‘‘ ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ متوسط درجے کے لوگوں کے لئے مرتب کی گئی ہے، بلکہ یہ آپ کے وہ دروس ہیں جو تسلسل کے ساتھ آپ سے ٹی وی چینل پر نشر کرائے گئے تھے اور بعد میں نظر ثانی اور اہتمام کے ساتھ کتابی شکل میں منظر عام پر لائے گئے۔ مبتدی طلبہ اور قارئین کے لئے آپ نے ایک الگ تفسیر ’’التفسیر الوسیط‘‘ کے نام سے تیار فرمائی جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ جن موضوعات پر آپ کی قابل ذکر اور لائق استفادہ تصانیف منظر عام پر آئیں ہیں ان میں حدیث ،قانون ، اسلامی معاشیات ،اسلامی بینک کاری،اسلامی سیاست،حقوق انسانی اور اسلامی اخلاقیات پر آپ کی کتابیں اہم ہیں ۔
آپ فکر اسلامی کی ضروری تجدید کے بھی مکمل حامی رہے،چنانچہ بہت سے مفاہیم کی نظر ثانی میں آپ نے خود حصہ لیا اور مجموعی طور پر جوہر اور اصول کو باقی رکھتے ہوئے اس پر نظر ثانی کے قائل رہے ۔ آپ نے اپنی کتاب ’’الاسلام دین الشوری و الدیموقراطیۃ‘‘ میں جمہوریت پر شاندار اور متوازن بحث کی ہے اور کہا ہے کہ جمہوریت در اصل اسلامی سیاست کی روح ہے، اگر اس سے حاکمیت مخلوق کو جدا کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ مزید یہ بھی کہا کہ آج جمہوریت میں بہت سے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو اسلامی روح یا شریعت سے متضاد نہیں ہوتے، ان کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مساوات مرد وزن اور انسانی حقوق وغیرہ پر بھی آپ کا کام جدید فکر اسلامی کے خد و خال سمجھنے اور طے کرنے میں کافی معاون اور مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔’’الاسرۃ المسلمۃ فی العالم المعاصر‘‘ اور ’’حقوق الانسان فی الاسلام‘‘ اس تعلق سے اہم کتابیں کہی جا سکتی ہیں۔
آپ کو تحریکات اسلامی اور اسلام کے غلبہ کے لئے ہونے والی ہر حقیقت پسند اور پرامن جد و جہد اور کوشش سے بے انتہا لگاؤ اور محبت تھی ۔ البتہ آپ کا ذاتی فیصلہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو علم و تحقیق کے میدان کے لئے خاص کر کے ہر ایک کو نفع اور فائدہ پہنچائیں اور فیض عام کریں، چنانچہ آپ نے مناسب سمجھا کہ کسی جماعت یا تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر کام کیا جائے ، مگر وہ تحریک اخوان المسلمون کو پسند کرتے تھے اور شام میں اخوان کی مدد اور تائید کرتے تھے۔ شام کی عوامی بیداری اور پھر فوج اور حکومت کی خون آشام حرکتوں پر بھی آپ نے اخوان اور عوام کی خاموش تائید کی تھی ۔ آپ کی وفات پر اخوان المسلمون کی ویب سائٹ پر تعزیتی بیان آیاتھا جس میں اس طرف واضح اشارہ موجود ہے ۔ آپ تحریکات اسلامی کی کامیابی کے لئے فکر مند رہتے تھے، چنانچہ لمبے غور و فکر اور تجزیے کے بعد آپ کا ماننا تھا کہ تحریکات اسلامی کو موجودہ وقت میں کامیابی کے لئے تین پہلوؤں پر بے انتہا توجہ دینے اور کام کرنے کی ضرورت ہے اور اب تک جو سست رفتاری یا دشواریاں رہی ہیں ان کی اصل وجہ یہی تین چیزیں ہیں ۔ اولا ،اسلامی اصولوں اور ضوابط کی مکمل پاسداری۔ ثانیا ، دور حاضر کی صحیح سمجھ اور پھر مختلف میدانوں اور شعبوں میں اسلام کی صحیح اور عملی قسم کی رہنمائی۔ ثالثا ، اسلامی کاز کے لئے ہونے والی تمام کوششوں اور جماعتوں میں اتحاد و اتفاق ۔
عالمی سطح پر علماء کے کردار کو جس طرح محدود کیا گیا،اور سماج کے با اثر اور فعال اداروں اور جگہوں سے علماء کی بے دخلی اور بر طرفی کا رویہ سامنے آیا ہے، اس سلسلے میں بھی آپ کو بے انتہا فکرمندی تھی اور اس کا ذمہ دار وہ بڑی حد تک علماء و دینی اداروں کی نا اہلی کو قرار دیتے تھے۔ آپ کا ماننا تھا کہ آج جو سیاست ، معیشت اور قانون کو بالکل علماء اور شریعت سے دور اور جدا کر دیا گیا ہے اس کے ذمہ دار کسی نہ کسی حد تک علماء بھی ہیں ۔ آپ کا خواب تھا کہ علماء اس قدر علوم و معارف اور صلاحیتوں کے حامل ہو جائیں کہ زندگی اور سماج کا کوئی شعبہ ایسا نہ ہو جہاں کوئی فیصلہ یا اتفاق علماء کی شرکت کے بغیر عمل میں آئے۔ یہاں تک کہ آپ کی خواہش یہ بھی تھی کہ فوج اور جنگ کے معاملات بھی علماء کے مشوروں کے بغیر طے نہیں ہونے چاہئیں ۔
اہل علم کے درمیان علمی و فکری دنیا میں اختلاف رائے ایک قابل تحسین عمل ہے، لیکن اس کے کیا حدود ہونے چاہئیں اور کس انداز سے اختلاف ہونا چاہئے ، اور اس کو کس حد تک موثر ہونا چاہئے، اور باوجود اختلاف رائے اور نظریاتی اختلاف کے ایک دوسرے کا احترام اورمحبت اور متفقہ مسائل میں ایک دوسرے کا تعاون اور سپورٹ کس انداز سے ہونا چاہئے ، ڈاکٹر وہبہ کی شخصیت اس معاملے میں ایک نمونہ کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر یوسف القرضاوی سے متعدد جگہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی کو علمی و فکری یا فقہی اختلاف رہا بلکہ موجودہ دور میں دو بڑے فقہی رجحان میں سے دونوں ایک ایک کے سرخیل اور امام کہے جا سکتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اہم شرعی مسائل میں اختلاف ہونے کی وجہ سے یورپین کونسل برائے افتا وبحوث سے الگ ہوکر آپ نے مجمع فقہاء الشریعۃ بامریکا کی بنیاد رکھی۔ تاہم ۲۰۰۷ میں دوحہ میں علماء کی ایک عظیم الشان کانفرنس کے دوران یوسف قرضاوی کی بعض باتوں سے ایک ایرانی عالم بہت ناراض ہوئے اور یوسف قرضاوی کو ملامت کر نے لگے ، ایسے میں وہبہ زحیلی ان کی حمایت میں کھڑے ہوئے اور ایرانی عالم کو خاموش کر کے بیٹھا دیا۔
ڈاکٹر وہبہ زحیلی جب تک طالب علم رہے پڑھائی اور مطالعے کے دلچسپ مشغلے سے اپنے آپ کو کبھی فارغ نہیں ہونے دیا اور جب زندگی کے عملی میدان میں آئے تو محیر العقول کارنامے انجام دیے، اور یہی وہ حقیقت ہے جس کا ادراک طالب علموں کو غیر معمولی بلندیوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کر سکتا ہے۔