فارغین جامعہ کی خدمات

فارغین جامعہ کی خدمات پر مولانا محمد اسماعیل فلاحی حفظہ اللہ ورعاہ کی یہ ایک تفصیلی تحریر ہے۔ اس پر مولانا نے کافی عرصے تک کام کیا ہے۔ باوجود یہ کہ فارغین جامعہ کی خدمات پر اب تک کی یہ سب سے تفصیلی اور جامع کوشش ہے، لیکن اس بات کا پورا امکان بلکہ یقین ہے کہ مختلف میدانوں میں فارغین جامعہ کی خدمات رہ گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو کتابی شکل میں شائع کرانے سے پہلے ادارہ حیات نو نے مناسب سمجھا کہ حیات نو کے ذریعہ اس کو منظرعام پر لایا جائے تاکہ اس میں جو کچھ کمیاں رہ گئی ہیں ، یا جن امور کا احاطہ نہیں کیا جاسکا ہے، ان کو دور کیا جاسکے۔ فارغین جامعہ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں مزید تفصیلات کی فراہمی میں ادارے کا ممکنہ تعاون فرمائیں۔ (مدیر)

جامعۃ الفلاح کو قائم ہوئے پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ ماہ اکتوبر کے اواخر میں انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح کا اجلاس عام منعقد ہونے جارہا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ ملک وبیرون ملک سے بڑی تعداد میں فارغین جامعہ اس اجلاس میں شرکت فرمائیں گے۔ اس موقع پر تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنا احتساب اور جائزہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کس منزل تک پہنچے ہیں اور ابھی کتنی منزلیں باقی ہیں۔ دنیا کی زندہ قومیں کسی منزل پر پہنچ کر دم نہیں لیتیں، اگلی منزل ان کے شوق پرواز کو آواز دے رہی ہوتی ہے۔ ع
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔
(ایک ایک نفس کو دیکھتے اور جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا پیش کیا اور کیا تیاری کی ہے۔)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا۔
(اپنا جائزہ لے لو اور احتساب کرلو قبل اس کے کہ تمہارا احتساب کیا جائے۔)
افراد ہوں یا اقوام، سب کے لیے فطرت کا یہ اصول ہے کہ جو اپنا جائزہ لے گا اور اپنا احتساب کرے گا، اور اس کے مطابق اپنی اصلاح کرے گا، اپنی غلطیوں کی تلافی کرے گا اور اپنی رفتار میں تیزی لائے گا، زندگی کے میدان میں وہی آگے بڑھے گا۔ کوئی دوسرا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ع
صورتِ شمشیرہے دستِ قضا میں وہ قوم
جو کرتی ہے ہر زماں اپنے عمل کا حساب
کسی فرد، ادارہ، تنظیم اور قوم کا جائزہ لینے کے لیے پہلے یہ متعین طور سے جاننا ضروری ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے اور اس کا نصب العین اور گول کیا ہے۔ یہ جانے بغیر حقیقی طور سے جائزہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جامعۃ الفلاح کے قیام کا ہدف اور مقصد کیا تھا۔ اس کے بانی اور مؤسسین اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جامعۃ الفلاح کے اغراض ومقاصد اس کے دستور میں یوں درج ہیں:
’’جامعہ کا مقصد ایسے افراد کی تیاری ہے جو
الف۔ قرآن و سنت کا گہرا علم اور صحیح دینی بصیرت رکھتے ہوں۔
ب۔ جن کی نظر وقت کے اہم مسائل پر ہو اور جو غیر اسلامی افکارونظریات سے بخوبی واقف ہوں۔
ج۔ جو اسلامی اخلاق و کردار کے حامل ہوں۔
د۔ جن میں احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کا جذبہ ہو۔
ہ۔ جو گروہی، جماعتی اور فقہی اختلافات سے بالا تر ہوکر وسعتِ قلب و نظر کے ساتھ معاشرے کی اصلاح و تعمیر کا فریضہ انجام دے سکیں۔
۲۔ ایسا نصاب تعلیم زیرعمل لانا جس میں دینی اور دنیوی تعلیم کا بہترین امتزاج ہو، اور جو جامعہ کی اساس سے ہم آہنگ ہو۔
۳۔ اسلام کی خدمت کے لیے دورجدید کے تقاضوں کے مطابق فکری، علمی اور تحقیقی مواد فراہم کرنا۔
۴۔ فنی، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا اس طرح نظم کرنا کہ جامعہ کا بنیادی مقصد متأثر نہ ہو۔ 
قرآن و سنت کا گہرا علم اور صحیح دینی بصیرت، وقت کے اہم مسائل پر نظر، غیر اسلامی نظریات سے واقفیت، اسلامی اخلاق و کردار اور احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کا جذبہ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ ان کی کوئی حد نہیں۔ ایسی کوئی منزل نہیں آسکتی جہاں پہنچ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم مکمل ہوگئے۔ یہ کام زندگی بھر کا ہے اور ہمیشہ جاری رکھنے کا ہے۔ ایسا وقت کبھی نہیں آسکتا کہ ہم یہ سمجھیں کہ اب ایسی منزل آگئی جس کے آگے اب کوئی منزل نہیں۔ یہاں تو حال یہ ہے بقول شاعر ع
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
ا س کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا
یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ بحیثیت مجموعی احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کا جذبہ اپنے سینہ میں موجزن پاتے ہیں اور بعض استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر سبھی گروہی، جماعتی اور فقہی اختلافات سے اوپر اٹھ کر معاشرے کی اصلاح و تعمیر کا فریضہ اپنی طاقت بھر انجام دے رہے ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی جماعت اسلامی کے ساتھ ہے، کوئی الگ سے کسی نظم سے جڑا ہوا ہے اور کوئی انفرادی حیثیت سے اس کام میں لگا ہوا ہے۔ بشری کمزوریوں کی بات دوسری ہے، انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کا حال بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا تھا، آپ کی مجلس میں کیفیت کچھ اور ہوتی تھی اور گھر میں، بال بچوں میں اور کاروبار میں ہوتے تو اس کیفیت میں فرق آجاتا جس کا اظہار انھوں نے نبیؐ سے کیا بھی ہے۔
جو باتیں میں نے عرض کی ہیں، بعض لوگ اس سلسلہ میں کچھ ریزرویشن رکھتے ہیں ایسے لوگوں سے میں اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں ع
گل بھی وہی، چمن بھی وہی، فرق نظر نظر کا ہے
جہاں تک نصاب تعلیم کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ علمِ قدیم صالح اور علم جدید نافع کا حسین سنگم ہے جس پر برابر غور و فکر ہوتا رہتا ہے اور بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کو مثال سے سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک دور وہ تھا کہ دار العلوم دیوبند ایک سرے پر تھا اور اس کے بالکل دوسرے سرے پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تھی۔ علامہ شبلی نعمانی اور ان کے رفقاء نے اصلاح نصاب کی کوشش کی تو دار العلوم ندوۃ العلماء وجود میں آیا، جو دار العلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی درمیانی کڑی بنا۔ جامعۃ الفلاح کو آپ یوں سمجھیں کہ اب وہ دار العلوم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی درمیانی کڑی ہے۔
اس وقت ہم کچھ متعین پہلوؤں سے فارغین جامعہ کی خدمات کا جائزہ لیں گے۔
الف۔ قرآنی خدمات
ب۔ تعلیمی و تدریسی خدمات
ج۔ دعوتی و تحریکی خدمات
د۔سماجی سیاسی اور دیگر میدانوں میں خدمات
ہ۔ طبی خدمات
و۔ تصنیف، ترجمہ اور صحافت کے شعبہ میں خدمات
ز۔ ادبی خدمات
قرآنی خدمات:
فارغین جامعہ کی قرآنی خدمات کے تذکرہ میں سب سے اہم کام نیپالی زبان میں علاؤ الدین فلاحی کا ترجمہ قرآن ہے۔ نیپال دنیا کا غریب ترین ملک ہے جو جنوبی ایشیا میں ہندوستان اور چین کے درمیان واقع ہے۔یہاں کے باشندوں کی اکثریت ہندو، بودھ اور کمیونسٹ ہے۔ نسلی اعتبار سے دو قسم کی نسلیں پہاڑی اور مدھیشی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ یہاں کی قومی زبان نیپالی ہے۔ مسلمان اس ملک کے طول و عرض میں پہاڑ اور ترائی دونوں جگہ صدیوں سے آباد ہیں۔ مساجد، مدارس اور مکاتب کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا کام برسوں سے ہوتا رہا ہے۔ ہندوستان کے بڑے مدارس کے فارغین کی بھی اچھی تعداد ہے۔ لیکن غیر مسلم اکثریت میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی فکر کمیاب بلکہ نایاب رہی ہے، جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے فارغین نے اس طرف خاص توجہ دی اور اس مقصد کے لیے اسلامی سنگھ نیپال کا قیام ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۶ میں عمل میں آیا۔ اس تنظیم نے روزِ اول سے غیر مسلمین میں دعوتِ دین کی طرف توجہ دی۔ قرآن کریم کا ترجمہ نیپالی زبان میں اب تک نہیں ہوسکا تھا۔ آئے دن حق کے متلاشی اسلامی لائبریری گھنٹہ گھر کاٹھ منڈو آتے اور نیپالی زبان میں قرآن کا مطالبہ کرتے۔
علاؤ الدین فلاحی نے ۱۹۹۱ء میں جامعۃ الفلاح سے فضیلت کی تکمیل کے بعد اسلامی سنگھ نیپال کے دفتر میں آفس سکریٹری کی ذمہ داری سنبھالی اور ساتھ ہی جناب غلام رسول فلاحی نے جو اس وقت اسلامی سنگھ کے امیر ہیں، ان سے کہا: ’’آپ نیپالی زبان بہتر بنائیں۔ کتب اور اخبارات کی مدد سے اور کاٹھ منڈو کے نیپالی ماحول سے زبان میں مہارت حاصل کریں۔ آپ کو نیپالی زبان میں دینی کتب کے ترجمے کرنے ہیں۔‘‘ علاء الدین فلاحی نے یہ بات گرہ میں باندھ لی۔ کاٹھ منڈو کے دو سالہ قیام کے دوران انھوں نے اس طرف خاص توجہ دی۔ جامعۃ الاصلاح رام نگر بھوٹہا میں درجہ ہفتم تک نیپالی وہ پڑھ چکے تھے اس وجہ سے اسے مزید ترقی دینے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ پھر ان کا داخلہ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوگیا۔ اس کے کچھ سالوں بعد ریڈیو پاکستان نے نیپالی سروس شروع کی، جسے چلانے کی ذمہ داری شہید فیضان احمد فلاحی اور ان کو دی گئی۔ دو سال تک نیپالی زبان میں خبروں کا ترجمہ کرنے اور پھر ریڈیو پر پیش کرنے کے عمل نے نیپالی زبان میں مزید نکھار پیدا کردیا۔
۲۰۰۴ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد کاٹھ منڈو پہنچتے ہی اس وقت کے اسلامی سنگھ کے جنرل سکریٹری نظر الحسن فلاحی نے ان سے کہا کہ تنظیم نے قرآن کے نیپالی زبان میں ترجمہ کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں مالیات کی فراہمی قرآن اکیڈمی لندن کے ڈائرکٹر جناب حافظ منیر الدین صاحب نے قبول کرلی ہے، لہٰذا آپ کام شروع کردیں۔ اس کام میں معاونت کے لیے ڈاکٹر عمران انصاری اور بشیر احمد فلاحی کو مقرر کیا گیا۔ علاؤ الدین فلاحی نے ترجمہ کا کام ۱۲؍مئی ۲۰۰۴ء بمطابق ربیع الاول ۱۴۲۵ھ کاٹھ منڈو کے سینا منگل میں شروع کیا۔ انھوں نے یہ ترجمہ براہِ راست قرآنی آیات کو پیشِ نظر رکھ کر کیا،البتہ اس سلسلہ میں درج ذیل تراجم سے مدد لی:
۱۔ تفہیم القرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی
۲۔ ہندی ترجمہ قرآن مولانا فاروق خان
۳۔ تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی
۴۔ احسن البیان مولانا محمد جونا گڑھی
شکل یہ ہوتی کہ علاؤ الدین فلاحی ترجمہ کرتے جاتے اور بشیر احمد فلاحی عربی زبان کے نقطہ نظر سے اور جناب ڈاکٹر عمران انصاری نیپالی زبان کے نقطہ نظر سے اصلاح کرتے جاتے۔ انھیں اسلامی سنگھ کی طرف سے صرف ترجمہ کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن انھوں نے تفہیم القرآن، تدبر قرآن اور احسن البیان کی مدد سے تمام ۱۱۴؍ سورتوں کا تعارف، پس منظر، شان نزول، پچھلی سورتوں سے تعلق، نظم کلام اور مصطلحات کی تشریح بھی تفصیل کے ساتھ کی۔
ترجمہ کی تکمیل کے بعد دو کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ایک کمیٹی علماء کرام پر مشتمل تھی، اس کمیٹی نے آیات کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ بغور پڑھا اور تصحیح کی۔ اس کمیٹی میں ذو الفقار علی فلاحی علیگ، نظر الحسن فلاحی، بشیر احمد فلاحی اور محمد حسن حبیب فلاحی علیگ، محمد عالم اصلاحی، غلام رسول فلاحی اور عامر عارف فلاحی تھے۔ دوسری کمیٹی نیپالی زبان کے ماہرین پر مشتمل تھی جس نے زبان کی غلطیوں کی اصلاح کی۔ اس کمیٹی میں ڈاکٹر عمران انصاری، عرفان پوکھریل اور محمد ذاکر حسین تھے۔
قرآنی خدمات کے ضمن میں دوسرا اہم کام مولانا نسیم غازی فلاحی کا ہے۔ دعوت کے سلسلے میں عملی وفکری دونوں میدانوں میں مولانا کی خدمات معروف ہیں۔ سیرت پر ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی معروف ترین کتاب ’’محمد عربی‘‘ کے ہندی ترجمہ سے لے کر تفہیم القرآن کا ہندی ترجمہ اور متعدد کتابوں کی تصنیف آپ کے اہم کارنامے ہیں۔
تفہیم القرآن کا ہندی ترجمہ اب تک نہیں ہوسکا تھا، جبکہ ہندوستان میں دعوت دین ہی کے تناظر میں نہیں بلکہ عمومی طور پر ملت اسلامیہ ہند کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو تفہیم القرآن کا ترجمہ ہندوستان میں مسلم وغیرمسلم سب کی ضرورت ہے۔ اس اہم اور بڑے کام کا بیڑہ مولانا نسیم احمد غازی فلاحی نے اٹھایا۔ الحمدللہ آپ کی کوششوں سے تفہیم کی دوجلدیں ہندی زبان میں منظرعام پر آچکی ہیں۔ تیسری جلد کا انتظار ہے۔ مولانا نسیم غازی فلاحی صاحب کی ایک اہم کوشش قرآن کے بعض الفاظ پر غیرمسلموں کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہے۔
قرآنی خدمات کے ضمن میں ایک اور اہم کام جناب مسیح الزماں فلاحی کا ہے۔ قصبہ لار، ضلع دیوریا کے رہنے والے ہیں۔ جامعۃ الفلاح سے ۱۹۸۷ء میں عا لمیت و فضیلت کے بعد ندوۃ العلماء سے ادب میں تخصص کیا ہے۔
فی ظلال القرآن سید قطب شہیدؒ کی معرکۃ الآراء تفسیر ہے، یہ تفسیر بیک وقت تحریکی بھی ہے، دعوتی بھی ہے اور تربیتی بھی ہے۔ ان کی کتاب معالم فی الطریق کے بعض مندرجات پر ان کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور انھوں نے مسکراتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا۔ اس عظیم مجاہد کی یہ انقلابی تفسیر اپنی مثال آپ ہے۔ اس تفسیر کا ترجمہ مولانا سید حامد علی مرحوم نے شروع کیا تھا۔ پہلے ایک جلد میں پارہ عم کا ترجمہ کیا تھا، اس کے بعد سورہ فاتحہ سے لے کر سورہ مائدہ تک چار جلدوں میں ترجمہ کر پائے تھے کہ ان کی صحت اس لائق نہیں رہی اور وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ ترجمہ اتنا سلیس اور زور دار ہے کہ ترجمہ محسوس نہیں ہوتا، ان کے کیے ہوئے ترجمہ کی کچھ اور بھی خصوصیات ہیں جن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں۔ ترجمہ کے اس کام کو جناب مسیح الزماں فلاحی نے آگے بڑھایا ہے، اور اب تک سورہ انعام سے سورہ حج تک کا ترجمہ مکمل ہوگیا ہے جو ضخیم پانچ جلدوں میں ہے۔ آگے ترجمہ کا کام جاری ہے۔ بڑی محنت اور لگن سے وہ اس ترجمہ میں مصروف ہیں۔
اس کے علاوہ محمد علی صلابی کی ایک کتاب کا دو جلدوں میں ’’فتح و غلبہ کا قرآنی تصور‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر مجدی ہلالی کی دو کتابوں کا ترجمہ ’’طوفان آرہا ہے‘‘ اور ’’نصرت و غلبہ کی بشارت کس کے لیے‘‘ ناموں سے کیا ہے۔ یہ کتابیں بھی قرآنی تناظر میں ہیں۔
مسیح الزماں فلاحی کے مضامین سہ روزہ دعوت (اردو) اور الدعوۃ عربی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ جامعہ اسلامیہ تلکہنا میں تدریسی خدمات بھی انجام دی ہے۔ ۲۰۰۰ء میں مدرسہ اسلامیہ دار السلام اور ۲۰۰۶ء میں جامعۃ الطیبات ان دو اداروں کی بنیادقصبہ لار میں رکھی ہے۔ عیدگاہ قصبہ لار کے امام ہیں اور مقامی طور سے دعوتی و اجتماعی سرگرمیاں جاری ہیں ۔
فلاحیوں میں متنوع قسم کی صلاحیتوں کی مالک ایک غیر معمولی شخصیت ڈاکٹر محی الدین غازی کی ہے۔ یہ جید اور ممتاز عالم دین ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی مصنف ’’البرہان فی نظام القرآن‘‘ کے لائق فرزند ہیں۔ جامعۃ الفلاح سے عا لمیت و فضیلت کرنے کے بعد، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے شرعی علوم میں گریجویشن کیا۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ایڈوانس ڈپلوما کیا۔ ساتھ ہی یونیورسٹی سطح کی تدریس (ایجوکیشن) کی ٹریننگ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے ’’مواقف تفسیریۃ لابن ہشام الأنصاری فی کتابہ مغنی اللبیب‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی، جس پر انہیں ڈاکٹریت کی ڈگری ملی۔موصوف ’’دار الشریعۃ للاستشارات المالیۃ والقانونیۃ‘‘ دبئی میں ہیڈ آف ریسرچ تھے۔ اس وقت کیرلا میں مقیم ہیں، اور مختلف علمی وفکری محاذوں پر کام کررہے ہیں۔ آپ کا ایک اہم علمی کام مولانا امانت اللہ اصلاحی صاحب کے افادات کی روشنی میں ’’اردو تراجم قرآن پر ایک نظر‘‘ ہے۔ یہ قسط وار حیات نو اور پاکستان کے معروف علمی مجلہ ’’الشریعہ‘‘ میں پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔
آپ مختلف عالمی اداروں میں بھی سرگرم رول ادا کررہے ہیں۔ مجمع فقہاء الشریعۃ بامریکا (فقہ اکیڈمی، امریکہ) جس کے ممبردنیا بھر کے تقریبا صرف چالیس منتخب فقہاء ہیں، آپ بھی اس کے ممبر ہیں۔ رابطۃ علماء اہل السنۃ کی مجلس تاسیسی اور اس کی مجلس الامناء، نیز الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین جس کے صدر علامہ یوسف القرضاوی ہیں، اس کے ممبر ہیں۔ عربی زبان میں قرآنیات کی ایک معروف ویب سائٹ ہے ملتقی اھل التفسیر آپ اس کے بھی سرگرم ممبر ہیں۔ اس ویب سائٹ کے ممبروں کی تین قسمیں ہیں، عام، خاص اور فعال، سو سے زیادہ تفسیری مقالات اور مراسلے جس کے ہوں وہ فعال ممبر کہلاتا ہے۔ ان کے ڈیڑھ سو سے زیادہ مقالات اس سائٹ پرہیں۔ اس کے علاوہ امارات، اردن، جیبوتی، عمان اور ہندوستان وغیرہ درجنوں ممالک میں اسلامی بینکنگ کے سلسلہ میں سفر کرچکے ہیں۔ سراج الدین اودھی کی ہدایۃ النحو کی شرح و تحقیق کا کام بھی آپ نے کیا ہے اور متعدد کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں، مثال کے طور پر استاذ عبد المجیدالنجار کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’فکری وحدت میں آزادئ رائے کا کردار‘‘ ، ڈاکٹر صلاح سلطان کی دو کتابوں کا اردو ترجمہ ’’عصر حاضر میں ازدواجی زندگی کے مسائل، مغرب کے تناظر میں‘‘ اور ’’محبت کی کنجیاں‘‘ کے نام سے کیا ہے۔آپ کے پچاس سے زیادہ عربی مقالات مختلف رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں۔آپ کے مقالات میں محور و مرکز کی حیثیت قرآن کریم کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سمیناروں اور کانفرنسوں میں بھی مقالے پیش کرتے رہے ہیں۔ان کے علاوہ ان کے سیکڑوں اردو مضامین دعوت، رفیق منزل اور دوسرے رسالوں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ انگریزی زبان میں بھی لکھتے ہیں۔
مولانا جاوید سلطان فلاحی، سابق استاذ جامعۃ الفلاح نے ’’منھج العینی فی التفسیر۔ عرض و تقویم‘‘ کے عنوان سے ایک قیمتی کام کیا ہے۔ امام بدر الدین العینی اصلاً محدث اور فقیہ حنفی ہیں، مفسر نہیں ہیں۔ صحیح بخاری کے شارح کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ان کی شرح ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ کے نام سے مطبوع ہے جو ۲۵ جلدوں پر محیط ہے۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’البنایہ شرح الھدایۃ‘‘ ہے، جو فقہ حنفی کی مستند کتابوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ ابو داؤد کی بھی شرح موصوف نے کی ہے۔ اس کے علاوہ امام العینی ۵۰؍ سے زیادہ مطبوع و مخطوط کتابوں کے مصنف ہیں۔ امام عینی کا اپنی مطبوع و مخطوط کتابوں میں، قرآنی آیات سے استشہاد میں جو منہج اور طریقہ کار رہا ہے۔ اس پر مذکورہ رسالہ ہے۔ جس کا مناقشہ ہوچکا ہے جس میں جاوید سلطان نے ممتاز نمبرات حاصل کیے ہیں۔ جامعۃ الامام قسم القرآن و علومہ سے اس رسالہ کو ایم اے کے لیے تسلیم کرلیا گیا ہے۔رسالہ کے آخر میں امام ابن رجب الحنبلی اور عینی کے درمیان مقارنہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ اس وقت جامعۃ الامام کلیۃ اصول الدین میں ’’قسم القرآن و علومہ‘‘ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کے بعض مقالات عربی میں ہیں۔ ایک مقالہ کا عنوان ’’تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ‘‘ ہے اس میں اس تفسیر کی اہمیت اور حجیت پر بحث کی ہے۔ نیز یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تفسیر صحابہ کا اطلاق کس تفسیر پر ہوگا اور اس کا حکم کیا ہے۔ ایک دوسرا مقالہ ’’قرآنی علوم ایک مطالعہ‘‘ ہے۔ اس میں انھوں نے اسباب نزول، مکی، مدنی سورتوں ، ناسخ و منسوخ آیات اور قراء توں کے مسئلے پر بحث کی ہے۔ امام ابو محمد الحسن بن علی بن سعید المقرئ چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں، ان کی ایک کتاب ’’الکتاب الاوسط فی علم القراء ات‘‘ ہے اس کتاب میں قرأت سے متعلق درایت کے جو مسائل ہیں، جاوید سلطان آج کل اس پر کام کرر ہے ہیں۔ ان کا ایک مقالہ نظریۃ النظم و اثرہ فی تحدید مفہوم الاعجاز والتفسیر کے عنوان سے بھی ہے۔
مولانا ابو زید توحید احمد (بسہم، اعظم گڑھ)کاایم اے کا مقالہ تھا۔ ’’أقوال عبد اللہ بن الزبیر فی تفسیر القراٰن الکریم۔ جمعاً و دراسۃً، یہ رسالہ مقدمہ کے علاوہ تین مباحث پر مشتمل ہے۔ یہ مباحث بڑے اہم ہیں اور ان کے تحت ذیلی عنوانات بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اس رسالہ کے علاوہ انھوں نے اور بھی مقالے لکھے ہیں۔ النسخ فی القراٰن الکریم لمصطفیٰ زید (عرض و تعریف)، مذاہب التفسیر الاسلامی لجولد زہیر (عرض و نقد)، منھج الجصاص فی احکام القراٰن، منھج النحاس فی اعراب القراٰن وغیرہ۔
جناب مولانا عبد العزیز سلفی فلاحی نے اپنے ہم فکر احباب کے ساتھ جنوری ۱۹۹۸ء میں ’’تحریک دعوت القرآن‘‘ کے نام سے ایک فکری دعوت اور علمی تحریک کی بنیاد ڈالی اور اس کے امیر منتخب کیے گئے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں ہے کہ عالم انسانیت کو قرآن مجید کی طرف بلانا اور اس کے سامنے قرآن کے اصول و قوانین کی تفہیم و تشریح، مسلمانوں کو قرآن مجید سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے پر آمادہ کرنا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں قدیم و جدید جاہلیت اور اس کے اثرات کا مطالعہ و محاسبہ، قرآن و سنت کی ہدایات کے تحت سیاست و معاشرت، اخلاق و تمدن، معاش و معاد، فقہ و قانون اور تعلیم و تدریس کی تنظیم نو، اسلام و مسلم مخالف سرگرمیوں کے فکری، اور علمی پہلوؤں کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ، ملکی رجحانات، پالیسیوں، امکانات و اقدامات کا مطالعہ و تجزیہ وغیرہ۔ قرآن کی فکر عام کرنے کے لیے ان کی نگرانی میں مطالعۂ قرآن کے چار حلقے چل رہے ہیں۔ایک سلسلہ کا دورۂ قرآن مکمل ہونے والا ہے۔ ان مقاصد کے لیے دار البیان کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ جس کے مقاصد دس شقوں میں ہیں۔ ایک ترجمان نکالنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کے تحت ’’دعوت القرآن‘‘ کے نام سے چار پانچ شمارے نکالے گئے۔ بعد میں مالی دشواریوں کے باعث اسے ملتوی کرنا پڑا۔ یہ تمام شعبے الرفاہ ایجوکیشنل اینڈ ویل فیر ٹرسٹ (AREWT) کے تحت کام کر رہے ہیں۔
مولانا خالد سیف اللہ سیفی فلاحی (اردن) نے جامعہ ام القریٰ مکہ سے ایم، اے کے لیے ۱۹۸۳ء میں القسم فی القرآن الکریم کے عنوان سے ایک ضخیم مقالہ لکھا تھا جس میں قرآن میں آئی ہوئی قسموں پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی (علی گڑھ) کی متعدد کتابیں قرآن سے متعلق ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں نظم و مناسبت، قرآن مبین کے ادبی اسالیب، کلچر، سائنس اینڈ وائلنس، دی قرانک اپروچ (انگریزی)، آسان تجوید (عربی سے ترجمہ)، قرآن اور عقل (عربی سے ترجمہ)، عقلیاتِ قرآن کریم (عربی کے ترجمہ)، تدبر قرآن کے اصول اور وسائل۔ تدبر اور تدبیر کی منہاجیات (عربی کے ترجمہ)، کتابِ ذکر و فکر(مقالات کا مجموعہ)، موصوف نے قرآن پر انگریزی میں سات مقالات اور اردو میں ۲۰ مقالات مختلف سمیناروں میں پڑھے ہیں جو چھپ چکے ہیں۔
ڈاکٹر احسان اللہ فہد فلاحی (علی گڑھ) کی کتاب ’’ابن جریر طبری، حیات، تصانیف، تفسیری کارنامے‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
ڈاکٹر محمد اسحاق پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے قرآن سے متعلق متعدد مقالات شائع ہوئے ہیں، مثلاً مولانا آزاد کی قرآن فہمی اور بصیرت، شاہ ولی اللہ کی قرآنی خدمات، چند سالوں قبل ان کی ایک کتاب ’’قرآن ۔ علم و معرفت کی شاہ کلید‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے علاوہ موصوف کا قرآن اور علوم قرآن، تاریخ، اور تفسیر وغیرہ پر لکچر ہوتا رہتا ہے۔ ان کی دو اہم کتابیں اور ہیں، ’’اندلس اور سسلی کی مسلم تاریخ و ثقافت‘‘ اور ’’عہد وسطیٰ کے شمالی ہند میں غیر مقلدانہ صوفی طریقے۔‘‘
مولانا رضوان احمد فلاحی (لندن) نے اپنے والد محترم ممتاز عالم دین مولانا صدر الدین اصلاحی کی تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ جو سورہ فاتحہ سے سورہ بقرہ آیت ۳۸۲ ؍ تک ہے، اس کی ترتیب وتدوین کا کام کیا ہے جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے چھپ کر آچکی ہے۔
مولانا عبد البر اثری فلاحی (مدھوبنی) ناظم اعلیٰ فیروس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ممبئی نے قرآن کے متعلق مختلف تحریریں لکھی ہیں۔ ان کی پہلی تحریر ’’شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے‘‘ یہ کتاب چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں مدارس میں تفسیرِ قرآن، ناظرہ قرآن اور علوم قرآن کی تدریس کا تجزیاتی مطالعہ اور اصلاحِ احوال کے لیے تجاویز ہیں۔دوسری کتاب ’’تَعَلَّم لغۃَ القراٰن‘‘ کے تین حصے ہیں، ہر حصہ ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ انگریزی میڈیم کے طلبہ کو سامنے رکھ کر پانچویں، چھٹی اور ساتویں جماعت کے لیے یہ کتاب تیار کی گئی ہے تاکہ وہ ضروری حد تک عربی صرف و نحو سے آگاہ ہوجائیں اور ان کے لیے قرآن فہمی کی راہ آسان ہوجائے۔ اس کتاب میں تمام مثالیں اور مشقیں قریب قریب قرآن سے ماخوذ ہیں۔ یہ کتاب مختلف اسکولوں اور اداروں میں داخلِ نصاب ہے۔تیسری کتاب ’’قرآن کا پیغام والدین کے نام‘‘ ہے۔ ۸۰ صفحات کی یہ کتاب والدین کے فرائض اور ذمہ داریوں سے متعلق آیات پر مشتمل دروس کا مجموعہ ہے۔چوتھی کتاب ’’قرآن سمجھنا آسان ہے‘‘ ۷۳ صفحات کی یہ کتاب زیرطبع ہے۔ اس کتاب میں قرآن سمجھنے کی مختلف آسان تدبیریں سمجھائی گئی ہیں۔ اس کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے قرآن سمجھنا ممکن نہیں، جیسی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے۔پانچویں کتاب ’’قدماء کا تفسیری سرمایہ‘‘ یہ دراصل ماہنامہ حیات نو بلریا گنج میں شائع ہونے والے مضامین ،تفسیر طبری، تفسیر کبیر، تفسیر ابن کثیر ، تفسیر جلالین، تفسیر کشاف، تفسیر قرطبی، تفسیر احکام القرآن اور تفسیر روح المعانی کا مجموعہ ہے جو عنقریب کتابی صورت میں آنے والا ہے۔کرلا ویسٹ ممبئی کے تحت حلقہ قرآن قائم ہے اس میں اجتماعی مطالعہ قرآن ہوتا ہے۔ دس سالوں سے اس کی نگرانی بھی کررہے ہیں۔
جناب شمیم قمر فلاحی (پٹنہ) نے چند کتابیں قرآن سے متعلق تصنیف کی ہیں۔ قوموں کی نفسیات اور قرآن مجید، عظمت قرآن، قرآن مجید کا صوتی اعجاز، قرآن مجید اور سابقہ صحیفے، قرآن فہمی کا آسان راستہ (یہ کتاب زیر ترتیب ہے)، اس کے ساتھ ہی کالج کے طلبہ اور ریٹائرڈ لوگوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ قرآن کی تفہیم بھی کراتے ہیں۔
مولانا رئیس احمد فلاحی (جامعۃ الفلاح) نے ڈاکٹر مجدی الہلالی کی کتاب ’’العودۃ الی القراٰن‘‘ کا ترجمہ رجوع الی القرآن کے نام سے کیا ہے جو ادارہ علمیہ جامعۃ الفلاح سے شائع ہوچکا ہے۔
حافظ احسان الحق فلاحی (جامعۃ الفلاح) کا ایک مضمون سورہ کہف کی آیت ’’ولاتقولن لشیء انی فاعل ذلک غدا‘‘ پر حیات نو کی زینت بن چکا ہے۔نیز عقیدہ آخرت پر ایک مضمون اور متعدد دروس قرآن حیات نو میں شائع ہوئے ہیں۔ قرآن کے اسالیب پر انھوں نے ایک مقالہ لکھا تھا جس پر انھیں تخصص فی القرآن کی ڈگری ملی تھی۔
مولانا انیس احمد فلاحی مدنی نے ’’المنھج القویم لتدریس القرآن الکریم‘ کے عنوان پر مقالہ لکھ کر ادارہ علوم القرآن سے پہلا انعام حاصل کیا ۔جناب پرویز عالم فلاحی نے خاندانی نظام اور قرآنی تعلیمات پر کتابچہ لکھا ہے۔ مولانا ابو المکارم فلاحی صاحب نے تفسیر مہائمی پر کام کیا ہے۔ سراج احمد برکت اللہ فلاحی (نیپال) نے قرآن سے متعلق دو مضامین لکھے ہیں ۔ تفسیر ابن کثیر۔ ایک تعارف، حافظ ابن کثیر ایک تعارف۔ ادریس جمیل فلاحی (نیپال) نے ایک کتاب ’’قاعدہ ترتیل القرآن‘‘ اور عامر عارف فلاحی (نیپال) نے بھی ’’قاعدہ ترتیل القرآن‘‘ نامی کتاب ترتیب دی ہے۔ ’’تعلیم قرآن کے اصول و آداب‘‘ پر ادریس جمیل فلاحی کا ایک مقالہ ’’پیغام‘‘ میں شائع ہوا ہے۔
راقم الحروف نے متعدد مقالات اور محاضرات دعوہ کیمپ اور دیگر سمیناروں اور اجلاسوں میں پیش کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’اعجازِ قرآن‘‘ ، ’’قوموں کے عروج و زوال میں سنتِ الٰہی‘‘، ’’مقاصدِ نزول قرآن‘‘ ، ’’دعوت کا انبیائی طریقہ‘‘، ’’قرآن کا مثالی نوجوان‘‘، ’’أصحاب کہف ‘‘ ، ’’ذوالقرنین‘‘ ، ’’سفر موسیٰ مع خضر‘‘ ، ’’قرآن کی روشنی میں تقویٰ‘‘ ، ’’تاریخِ عزلی و نصب قرآن کی روشنی میں‘‘ ، ’’حکومت الٰہیہ کا قیام کیوں اور کیسے‘‘ ، ’’حکمتِ دعوت قرآن کی روشنی میں‘‘، ’’قرآن کے جدالِ احسن کے نمونے‘‘ ، ’’وحی الٰہی، جمع قرآن اور تاریخ قرآن سے متعلق اعتراضات کا جائزہ‘‘ ، ’’توحید و شرک کی حقیقت قرآن کی روشنی میں‘‘ ، ’’نظم قرآن‘‘ ، ’’تدبر قرآن۔ ایک معروضی جائزہ‘‘ ، ’’تفہیم القرآن۔ ایک مطالعہ‘‘ ، ’’ہمارا طریقہ تدریسِ قرآن اور اس سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ اس کے علاوہ درج ذیل تراجم و تفاسیر کی خصوصیات وامتیازات پر بھی کام کیا ہے:
الف۔ کنز الایمان مولانا احمد رضا خاں صاحب اور تفسیر محمد نعیم الدین صاحب
ب۔ ترجمہ شاہ عبد القادر وتفسیر موضح القرآن
ج۔ ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلوی
د۔ترجمہ مولانا محمد جوناگڑھی وتفسیر صلاح الدین
ہ۔ترجمہ مولانا محمد فتح خان جالندھری
و۔ تفسیر ماجدی(مولانا عبد الماجد دریا آبادی)
ز۔ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن و حواشی مولانا شبیر احمد عثمانی
ح۔ بیان القرآن (مولانا اشرف علی تھانوی)
ط۔ معارف القرآن (مولانا مفتی محمد شفیع)
ی۔ تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
ک۔تدبرِ قرآن (مولانا امین احسن اصلاحی)۔
درج ذیل فلاحی برادران مختلف اداروں میں تدریس قرآن سے وابستہ ہیں یا ماضی میں رہے ہیں:
راقم الحروف حافظ محمد اسماعیل فلاحی اور حافظ احسان الحق فلاحی نے کئی دہائیوں تک جامعۃ الفلاح میں قرآن مجید کی تدریس کی خدمت انجام دی ہے۔اس کے علاوہ مولانا انیس احمد فلاحی، مولانا رئیس احمد فلاحی، مولانا عبد العظیم فلاحی، مولانا ضمیر الحسن فلاحی، مولانا جاوید سلطان فلاحی، مولاناابوزید توحید احمد فلاحی، مولاناشاہد کریم اللہ فلاحی، مولاناعلی مرتضیٰ فلاحی، مولاناامیر احسن فلاحی، مولانااختر احسن فلاحی، مولانااظہرالدین فلاحی، مولاناشبیر فلاحی، مولاناادریس سعیدی فلاحی، مولاناعارف حسین فلاحی، مولانااطہر علی فلاحی، مولاناادریس فلاحی، مولاناعبدالجبار فلاحی، مولانامطیع الرحمان فلاحی، مولانامطیع اللہ فلاحی(جامعۃ الفلاح) ، مولاناطارق احسن گیاوی فلاحی، مولانانور محمد فلاحی مرحوم، مولانااکرم حسین فلاحی،مولانا عبدالبراثری فلاحی۔
دعوتی اور تحریکی خدمات
آج سے بہت پہلے اپنے ایک مضمون میں میں نے لکھا تھا کہ’’شاید آپ میری اس بات کی تائید کریں کہ معدودے چند کے علاوہ کوئی فلاحی ایسا نہیں ہے جو اس شعبہ سے تعلق نہ رکھتا ہو یا جس کا وظیفہ حیات اس کے علاوہ بھی کچھ ہو۔ جوشِ عمل میں اتار چڑھاؤ اور خطاونسیان ایک دوسری چیز ہے۔ انسان کی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں، کبھی دیوانگی کی کیفیت ہوتی ہے، کبھی جوشِ عمل ماند پڑجاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ فلاحی برادران عام طور سے دعوت کے اس عظیم کام میں مشغول ہیں چاہے وہ زندگی کے کسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں، تجارت ہو یا زراعت، صنعت وحرفت ہو یا ملازمت، تعلیم وتدریس ہو یا ترجمہ اور تصنیف وتالیف، کوئی سا بھی شعبہ ہو اور وہ کہیں ہوں، سفر میں، حضر میں، کارخانہ میں یا آفس میں، ملک کے اندر یا باہر، ہر جگہ انہیں اپنی یہ حیثیت یاد رہتی ہے اور وہ اپنی جگہ بیٹھے خاموشی سے اس کام میں لگے رہتے ہیں‘‘۔ ان میں کی ایک بڑی تعداد جماعت کے ساتھ وابستہ ہے، کچھ لوگ کسی دوسرے نظم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ انفرادی طورپر اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ احیائے دین یا اقامت دین بڑا وسیع الاطراف لفظ ہے، زندگی کے جس شعبہ سے کوئی تعلق رکھتا ہو اگر یہ اس کا مقصد اور نیت ہے تو وہ اس عمل میں شریک ہے۔ اس اعتبار سے اب تک فارغین جامعہ کی خدمات کے جن میدانوں کا ذکر بھی کیا ہے،اورجتنے فارغین کے ناموں کا ذکر آیا ہے، وہ سب کے سب کسی نہ کسی صورت میں دعوت کے میدان سے جڑے ہوئے ہیں۔
کچھ لوگ جو اس شعبہ میں نمایاں ہیں، ان کا ذکر اجمالاً مناسب معلوم ہوتا ہے۔ نسیم احمد غازی صاحب ایک زمانہ میں شعبہ دعوت کے انچارج سکریٹری جماعت اسلامی ہند جناب مولانا محمد شفیع مونسؒ کے معاون خاص رہے ہیں اور اِس وقت اسلامک ساہتیہ ٹرسٹ اور مدھرسندیش سنگم کو دیکھ رہے ہیں۔ ظہیر عالم فلاحی، مقبول احمد فلاحی اور طارق فار قلیط فلاحی مرحوم بالترتیب نظمائے علاقہ جماعت اسلامی ہند الٰہ آباد، گورکھپور اور جھانسی رہے ہیں، نیز رکن ریاستی شوریٰ اور مجلس نمائندگان رہے ہیں۔ مولانا محمد عمران فلاحی امیر مقامی جامعۃ الفلاح، ناظم ضلع اعظم گڑھ، ریاستی شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے رکن ہیں۔ مطیع اللہ فلاحی یوپی مشرق حلقہ کی سطح کے شعبہ دعوت کے ذمہ دار رہے ہیں۔ رئیس فلاحی(اناؤ) ناظم علاقہ بستی رہے ہیں۔ حامد علی ساغر یوپی مشرق میں سکریٹری حلقہ رہے ہیں۔ سید غازی فخن پورہ کے امیر مقامی ہیں۔ زرتاج اپنے علاقہ کے ذمہ دار رہے ہیں۔ شبیر فلاحی(دہلی) اور عبدالحق فلاحی (بستی) بالترتیب سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد یوسف برّداللہ مضجعہ اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی قدّس اللہ سرہ کے پرائیوٹ سکریٹری رہ چکے ہیں۔ عبدالحق فلاحی امیر مقامی کھنڈیل، گیا ہیں۔ نور محمد فلاحیؒ امیر مقامی جماعت اسلامی ہند زمین رسول پور، جمیل احمد فلاحی رکن مقامی شوریٰ بلریا گنج اور معاون امیر مقامی بلریاگنج رہے ہیں۔ حافظ احسان الحق فلاحی اس وقت امیر مقامی نصیر پور ہیں۔ محمد یعقوب فلاحی(سیوان) قرآن درشن کے متعدد اضلاع کے ذمہ دار رہے ہیں۔ اس کے قبل ناظم ڈویزن ایس آئی اوبہار رہ چکے ہیں۔ ان کی خدمات وسیع الاطراف ہیں۔ اس وقت وہ جماعت اسلامی ہند سیوان کے سرگرم کارکن ہیں۔ صباح الدین ملک فلاحی معاون امیر مقامی جماعت اسلامی ہند احمد آباد رہے ہیں۔ اس وقت مختلف مکاتب فکر کے علماء کو متحد کرنے اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے منصوبہ پر بڑی سنجیدگی اور محنت سے کام کررہے ہیں۔ یہ ڈائنامک صلاحیت کے مالک ہیں، جس کام میں لگ جاتے ہیں اس کو ایک نتیجے تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ ثاقب حسین فلاحی(بدایوں) میں اے پی سی آر کے ذمہ دار رہے ہیں۔
محمد محفوظ خان فلاحی (بھوپال) عبدالعزیز سلفی، عبدالبراثری، شاہد بدر فلاحی سیمی (کالعدم) تنظیم کے کل ہند صدر رہے ہیں۔ عبدالحی فلاحی اس کے دہلی کے صدر رہے ہیں۔ عبدالقوی فلاحی (بستی) اس کے ایم۔ پی کے صدر، طیب حسن فلاحی اس کے صدر حلقہ پنجاب وبہار، سرفراز احمد فلاحی صدر حلقہ راجستھان، اور یٰسین پٹیل فلاحی صدر حلقہ گجرات رہے ہیں۔
منور حسین فلاحیؒ ، طارق فارقلیط فلاحی، انعام اللہ فلاحی، عرفان فلاحی(بجنور) صدر حلقہ ایس آئی او یوپی، جاوید سلطان فلاحی صدر حلقہ ایس آئی او مشرقی یوپی، محمد نعیم فلاحی اور قسم رسول فلاحی صدر حلقہ ایس آئی او راجستھان رہے ہیں۔ ولی اللہ سعیدی فلاحی صدر حلقہ ایس آئی او یوپی مشرق اس کے قبل صدر ایس آئی او یوپی اور جنرل سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا رہے ہیں۔ وہ ناظم علاقہ گورکھپور اور امیر حلقہ یوپی مشرق رہے ہیں، اس وقت جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری شعبہ تربیت اور رکن مرکزی مجلس شوری ہیں اور طارق فارقلیط فلاحی مرحوم سکریٹری حلقہ یوپی مشرق رہے ہیں۔
منور حسین فلاحیؒ ، انعام اللہ فلاحی(بستی) اور زبیر ملک فلاحی سکریٹری حلقہ ایس آئی او یوپی رہے ہیں۔ انعام اللہ فلاحی اس وقت مرکز کے شعبہ تعلیمات سے وابستہ ہیں۔ محمد اعظم بیگ فلاحی، اقبال احمد فلاحی (بستی) عبد العزیز سلفی، حسن حبیب فلاحی، یٰسین پٹیل فلاحی، سیمی (کالعدم) کے سکریٹری حلقہ یوپی رہے ہیں۔
عبدالرب کریمی فلاحی، عبیداللہ فہد فلاحی اپنی تنظیم میں سکریٹری مرکز اور مؤخر الذکر اپنی تنظیم میں شعبہ تحقیق وتجزیہ کے کل ہند ذمہ دار رہے ہیں۔
منور حسین فلاحیؒ اور محمد طارق فارقلیط فلاحی سابق رکن مشاورنی کونسل ایس آئی او یوپی، سابق رکن مرکزی مشاورتی کونسل ایس آئی او، محمد یعقوب فلاحی رکن مشاورتی کونسل ایس آئی اوبہار، صباح الدین ملک فلاحی سیمی (کالعدم) کے سابق رکن مرکزی مجلس نمائندگان اور سابق رکن مرکزی مشاورتی کونسل رہے ہیں۔ حامد علی ساغر فلاحی، اس کے سابق رکن مشاورتی کونسل یوپی اور رکن مرکزی مشاورتی کونسل، عبدالعزیز سلفی، یٰسین پٹیل فلاحی، محمد شاہد فلاحی اس کے رکن مرکزی مشاورتی کونسل رہے ہیں۔
ولی اللہ سعیدی سابق رکن مشاورتی کونسل ایس آئی او یوپی، انیس احمد فلاحی(دہلی)، شمشاد حسین فلاحی، ابوبکر صدیق فلاحیؒ سابق رکن مشاورتی کونسل آئی او دہلی اور اقبال احمد فاروق فلاحی سابق رکن مشاورتی کونسل ایس آئی او مدھیہ پردیش رہے ہیں۔ محی الدین غازی اور رضوان احمد رفیقی مرکزی سکریٹری ایس آئی او رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر ملک فیصل فلاحی ایس آئی او کے آل انڈیا صدر رہے ہیں۔
غلام رسول فلاحی صدر آئی وائی ایس نیپال، محمد الیاس فلاحی جنرل سکریٹری اور صدر زون آئی وائی ایس، محمد سعید فلاحی اور محمد ادریس جمیل فلاحی جنرل سکریٹری آئی وائی ایس رہے ہیں۔ اس وقت نیپال کی منظم اور متحرک جماعت اسلامی سنگھ نیپال ہے۔ اس وقت اس کے امیر غلام رسول فلاحی، سکریٹری جنرل عارف حسین فلاحی، امیر کوشی زون محمد حسن حبیب فلاحی، سکریٹری کوشی زون نظام الدین فلاحی، امیر نارائنی زون مزمل الحق فلاحی، امیر لمبنی زون طاہر محمود فلاحی، سکریٹری لمبنی زون سراج احمد برکت اللہ فلاحی اور امیر بھیری زون عبیدالرحمان فلاحی ہیں۔ نیپال میں مسلمانوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے، اس میں بھی فلاحی علماء شامل رہے ہیں۔ اس کے پہلے جنرل سکریٹری غلام رسول فلاحی تھے، اس وقت نظرالحسن فلاحی جنرل سکریٹری کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علیٰ فلاحی شعبۂ دعوت کے ڈائرکٹر رہے ہیں۔ ابھی اس کے ذمہ دار نظرالحسن فلاحی ہیں، اسلامی سنگھ کے ساتھ نیپالی فلاحیوں کی بڑی تعداد وابستہ ہے۔
نیپال میں فلاحیوں کا ایک اور ادارہ ملت ایجوکیشنل اینڈویلفیئر سوسائٹی نیپال ہے جس کے ذمہ دار فیروز عالم فلاحی ہیں۔ فارغین وفارغات جامعۃ الفلاح کی ایک مختصر تعداد اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، البتہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سنگھ کے ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت تھی۔
کشمیر کے فارغین کی بڑی تعداد وہاں کی تحریک اسلامی اور وہاں کی جمعیت طلبہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ مجاہد شبیر احمد فلاحی نومبر۲۰۰۸ تا اکتوبر ۲۰۱۰ اسلامی جمعیت جموں وکشمیر کے جنرل سکریٹری رہے ہیں اور نومبر ۲۰۱۰ ء کی میقات میں ناظم اعلیٰ رہے، اس وقت وہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر میں کافی سرگرم ہیں۔ وہ اسٹوڈنٹس ویلفیئر ٹرسٹ جموں وکشمیر کے چیرمین بھی ہیں۔اس کے علاوہ ذاکر حسین فلاحی،ڈوڈا بھی جمعیت میں کافی سرگرم رہے، اس کی مشاورتی کونسل کے ممبر، اس کے ترجمان ’پیام‘ کے مدیر اور اس کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔
مقبول احمد فلاحی، جبریل امین فلاحی، جاوید اشرف فلاحی، حافظ احسان الحق فلاحی، عبیداللہ فہد فلاحی، صباح الدین ملک فلاحی، یونس فلاحی(بھساول) عبد العزیز فلاحی، حافظ اسرار احمد فلاحی، عبد البر اثری، کمال الدین فلاحی، رضوان الحق فلاحی، یٰسین پٹیل فلاحی، عبدالرب اثری فلاحی، سراج الدین فلاحی(بستی) سیمی (کالعدم) کے صدر جامعۃ الفلاح رہے ہیں۔ عبد البر اثری تحریک طلبہ عربیہ کے کل ہند ذمہ دار بھی تھے۔
یعقوب فلاحی صدر یونٹ ایس آئی او سیوان، حامد علی ساغر فلاحی، ولی اللہ سعیدی، امیر احسن فلاحی (بدایوں) انیس احمد فلاحی(دہلی) ضیاء الدین ملک فلاحی، تنویر عالم فلاحی دہلی، ممتاز عالم فلاحی، (مظفرپور) اکرام الرحمن فلاحی(ململ) ذکی الرحمان غازی، جاوید سلطان، شیخ عظیم الدین، (حیدرآباد)، محمد افضل فلاحی، یاسرخان فلاحی، عثمان فلاحی صدر یونٹ ایس آئی او جامعۃ الفلاح رہے ہیں۔ حامد علی ساغر فلاحی، امیرالحسن فلاحی(بدایوں) صباح الدین اعظمی فلاحی، ضیاء الرحمان فلاحی، محی الدین غازی، معین الدین فلاحی، سہیل احمد فلاحی، عبدالعظیم قاسم، ذوالقرنین حیدر سبحانی، عبدالقوی عادل، عبدالرحمن طاہر صدر یونٹ ایس آئی او بلریاگنج رہے ہیں۔
سعید احمد فلاحی صدر یونٹ ایس آئی او احمد آباد اور انیس احمد فلاحی صدر یونٹ ایس آئی او دہلی رہے ہیں۔
مولانا ظفر احمد اثری فلاحی، مظہر سید عالم فلاحی، قاری عرفان شمسی فلاحیؒ ، رضوان احمد فلاحی، خالد سیف اللہ فلاحی بیرونی ممالک دعوت وتبلیغ اور علم وتحقیق میں مصروف ہیں۔ ظفر احمد اثری فلاحی یوکے اسلامک مشن لندن کی مرکزی شوریٰ کے ممبر رہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں لندن ہی میں قائم اسلامی دعوت سنٹر کے انچارج بھی رہے ہیں۔ رضوان احمد فلاحی بھی اس کی شوریٰ کے رکن رہے ہیں۔ مظہر سید عالم فلاحی ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ ریاض سے اور رضوان احمد فلاحی یوکے اسلامک مشن لندن سے وابستہ رہے ہیں۔
ان دنوں جاوید سلطان، محمد شاہد کریم اللہ عبدالرحمان ولی محمد(چوکونیاں)، جنید احمد (بلرام پور)، عمران احمد فلاحی (نیپال)، ذوالقرنین حیدر سبحانی، شکیل احمد فلاحی، موسیٰ کلیم، مطیع الرحمن حنیف، اکرام الرحمن (ململ) جاوید بیگ عابد بیگ، انعام اللہ فلاحی(سرسال) خبیب احمد کاظمی، عبدالوحید فلاحی، محمد اکرام بستوی، آزاد اقبال خلیجی ممالک میں ہمارے مشن دعوت وتحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک فعال نوجوان جو وہاں ہم سے وابستہ تھا، ابوبکر صدیق فلاحی اس کا انتقال ہوگیا۔
دانش فلاحی (نصیرپور)، عبدالعظیم فلاحی (چاندپٹی)، کمال الدین فلاحی(علاو الدین پٹی)، عبدالرب(شاہ جہاں پور)، انعام اللہ فلاحی(شعبہ تعلیمات مرکز)، رضوان رفیقی، انیس احمد، طارق اکرام اللہ، شارق انصار اللہ دہلی، شمشاد حسین فلاحی، امتیاز وحید، ممتاز عالم (مظفرپور)، سراج احمد(مرکز)، عبدالرب کریمی(مرکز)، محمد رضوان (مرکزی مکتبہ اسلامی)، ڈاکٹر اسحاق، ڈاکٹر محمد خالد حامدی، ڈاکٹر محمد احمد منیجر ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ، عبیداللہ فہد، ضیاء الدین علی گڑھ، ڈاکٹر فیصل اقبال، ڈاکٹر غفران احمد، شفیق عالم رانچی، احمد اللہ چترپور، عبدالمغنی رانچی، اشتیاق عالم عطاء الرحمان(سیوان)، مشیر احمد وشمشیر احمد، زید عارف، ڈاکٹر اسرار احمدجیراج پوری، مشرف حسین فلاحی، نعیم غازی، وسیم غازی، عبدالقوی فلاحی اور کس کس کا نام گنایا جائے سب لوگ اپنی اپنی سطح پر دعوت واصلاح کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔
تعلیمی وتدریسی خدمات
میں نے انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح کے پانچویں اجلاس عام منعقدہ ۲۷ تا ۳۰؍ اکتوبر ۹۲ء کے موقع پر ’’فارغین جامعہ ایک نظرمیں‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا تھا۔ جو اگست ۱۹۹۵ء ؁ کے ’’حیات نو‘‘ میں شائع ہوا تھا، اس سے بعض چیزیں کچھ حذف و اضافہ کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
انقلاب کوئی بھی ہو اچھا یا برا، اس کا انتہائی اہم ذریعہ اور کسی بھی دعوت وتحریک کی کامیابی کا انتہائی اہم جزو تدریس ہے۔ ہر مؤثر اور پائیدار انقلاب کے پیچھے بالواسطہ یا بلاواسطہ اساتذہ کا ہاتھ رہتا ہے۔ وہ محاذ سے دور، بہت دور، کسی قریہ یا بستی میں بیٹھے انقلاب کی ڈور ہلاتے رہتے ہیں۔ ذہن سازی اور کردار سازی دراصل انہی کاکام ہے۔ کسی بھی ملک اور ملت کا مستقبل اس کے بچے ہوتے ہیں اور بچوں کا مستقبل ان کے اساتذہ سے وابستہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی مصلح ان کے رول کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ کسی انقلاب کو برپا کرنے یا کسی انقلاب کا رخ پھیرنے میں ریڑھ کی ہڈی اور اصل دماغ یہی ثابت ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے آگے بند باندھنے اور ہندوستان میں اسپین، قرطبہ کا سا حشر روکنے میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
حسن البنا شہیدؒ سے امتحان میں پوچھا گیا کہ ’’یہاں سے فراغت کے بعد آئندہ زندگی کے لیے تمہاری بڑی سے بڑی کیا تمنا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب میں فرمایا: ’’میری ایک خواہش تو یہ ہے کہ میں اپنے اعزہ و اقربا کے لیے سرتا سر باعث خیر و برکت ثابت ہوں۔۔۔ دوسری خواہش یہ ہے کہ معلم اور مصلح بنوں، دن میں بچوں کو تعلیم دوں اور رات میں ان کے سرپرستوں کی تربیت کروں۔۔۔ (مجاہد کی اذاں، ص: ۲۶) ایک مرتبہ ان سے دریافت کیا گیا: ’’آپ کتابیں کیوں تصنیف نہیں کرتے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’اُصَنِّفُ الرِّجَال‘‘۔ (حسن البنا شہید کی ڈائری ص ۷۰) میں تو رجال یعنی مردِ میدان اور رجال کار تصنیف کرتا ہوں۔
آج قحط الرجال کا شکوہ زبان زدِ خاص و عام ہے۔ اس قحط کو دورکرنے کی فکر، رجالِ کار کی فراہمی اور ان کی اصلاح و تربیت سے بڑھ کر ملت کی خدمت اور خیرخواہی کیا ہوسکتی ہے۔ یہ حسن البنا کی تصنیف رجال ہی تھی کہ جمال عبدالناصر اور اس کے بعد آنے والے حکمراں بربریت کے تازیانے برساتے برساتے تھک گئے، ان کے ظلم و جور کے سارے ہتھکنڈے بیکار گئے اور اخوان کے جوش جنوں میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ ع
بڑھتا ہے ذوقِ جرم یہاں ہر سزا کے بعد

دنیا فاتحوں اور جرنیلوں کو یاد رکھتی ہے، مصنفین دماغوں پر چھائے رہتے ہیں اور اس گوشۂ تدریس میں بالعموم گمنامی اور نانِ جویں کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس وجہ سے ہر کس وناکس اس کوچہ کا رخ نہیں کرتا، مردِ میدان ہی ادھر آیا کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ہم نے سوچ سمجھ کر اس ’’وادیِ غیر ذی زرع‘‘ میں قدم رکھا ہے۔
یہ بات ہمارے لیے باعث اطمینان اور وجہ سعادت ہے کہ اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے فلاحی برادران بڑی تعداد میں ہیں۔ جن کا استقصا دقت طلب ہے۔ اس شعبہ میں جو لوگ کسی نمایاں مقام پر ہیں ان کا ذکر یہاں بیجا نہ ہوگا۔ مولانا مقبول احمد فلاحیؔ ان دنوں جامعۃ الفلاح کے نائب ناظم کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی جامعۃ الفلاح کے مہتمم ہیں۔ مولانا اظہار احمد فلاحی نگران اعلیٰ رہ چکے ہیں اس وقت داخلہ اور امتحان کے ذمہ دار ہیں۔ مولانا انیس احمد فلاحی اس وقت شعبہ اعلیٰ کے صدر ہیں۔ شعبہ ثانوی کے ہیڈ ماسٹر عرفان احمد فلاحی (ہنگائی پور) ہیں، جبکہ شعبہ ابتدائی کے ہیڈ ماسٹر کمال الدین فلاحی (علاء الدین پٹی) ہیں۔ مولانا محمد عمران خان صاحب فلاحی ایک لمبے عرصہ تک جامعہ کے نائب صدررہنے کے ساتھ آخر میں شعبہ اعلی کی صدارت کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔ مطیع اللہ صاحب فلاحی جامعہ کے قائم مقام صدر رہے ہیں۔ راقم کے علاوہ مولانا محمد عمران خان صاحب فلاحی، نور محمدؒ فلاحی (زمین رسول پور)، عبد العظیم فلاحی (چاند پٹی) نے مختلف اوقات میں نگران اعلیٰ کے فرائض انجام دیے ہیں۔ عبد الرحمان زریاب فلاحی کچھ دنوں شعبہ اعلیٰ کے نائب صدر رہے ہیں۔ ابو المکارم صاحب فلاحی احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے نائب صدر رہے ہیں۔ نسیم غازی صاحب فلاحی الفلاح اسلامک اسکول کے سکریٹری اور مدرسۃ الفلاح کے صدر، مشتاق احمد فلاحی مصباح العلوم (چوکونیاں) کے صدر رہے ہیں۔ مشتاق صاحب کے بعد انعام اللہ فلاحی (بستی) مصباح العلوم کے صدر ہوئے ہیں۔ان کے بعد کچھ دنوں کے لیے یہ ذمہ داری شبیر فلاحی (چوکونیاں) کے ذمہ رہی۔ اظہر الدین فلاحی مصباح العلوم کے نگراں اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ امیر احسن فلاحیؔ جامعۃ الحق السلفیہ (بانسی) کے ماضی میں صدر رہے ہیں اس وقت جامعۃ الصالحات (بانسی) کے ذمہ دار ہیں۔ صالح سیف اللہ فلاحی (رانچی) مدرسۃ البتول کے ذمہ دار اور اسرار احمد فلاحی (کوٹہ) جامعۃ الھدیٰ کے شیخ الجامعہ ہیں۔ محمد یعقوب فلاحی اپنے علاقہ میں صباحی، شبینہ ایک مکتب چلا رہے تھے۔ مطیع الرحمن فلاحی مدھوبنی، عبد المؤمن فلاحی (بنگال)، عبد الاحد فلاحی (مدھوبنی)، طارق احسن فلاحی (گیا)، علی مرتضیٰ فلاحیؔ ، جبریل امین فلاحی اور ان کے بھائی انور کمال صدیقی فلاحی اپنے اپنے تعلیمی اداروں کے صدر مدرس، یا صدر انتظامیہ اور سکریٹری رہے ہیں۔ طارق احسن گیاوی کا ۱۹۸۱ء سے لے کر اب تک تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران ناظم تعلیمات، پرنسپل بنات عربک کالج اور انچارج کیمپس جامعۃ البنات، کھنڈیل کی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمان بن صابر حسین (ارریہ، بہار) نے جامعۃ الفلاح سے عا لمیت و فضیلت کے بعد مدینہ یونیورسٹی سے بی اے، میسور یونیورسٹی سے ایم اے (گولڈ میڈلسٹ)، سنسکرت یونیورسٹی کیرلا سے ایم فل اور اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اسلامیہ عربک کالج، منصورہ، ہاسن کرناٹک میں ۱۲ سال تک تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ اس وقت الجامعۃ الاسلامیۃ شانتا پورم میں کیرلہ میں مدرس تفسیر و ادب اور صدر شعبہ اردو ہیں۔
سید راشد حامدی فلاحی نے سید حامدعلی ویلفیئر اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی (رجسٹرڈ) قائم کی، جس کے تحت وہ تعلیمی اور رفاہی کاموں کے علاوہ ’’حامد علی گرلس انٹرکالج‘‘ کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے آبائی وطن میران پور کٹرہ میں ایک وسیع وعریض قطعہ اراضی بھی خرید لیا ہے۔ حافظ معین الدین فلاحی نے المبین فاؤنڈیشن کے نام سے تعلیمی و رفاہی ٹرسٹ قائم کیا ہے۔ جس کے زیرنگرانی دینی تعلیمی اور رفاہی اداروں کا قیام پیشِ نظر ہے۔ عبد البر اثری کوکن میں عصری مدارس میں دینی و اخلاقی تعلیم کا جو نظام قائم ہے اس کے ذمہ دار ہیں۔ کشمیر کے فلاحی طلبہ کی ایک خاصی تعداد وہاں کی جماعت کے گاؤں گاؤں اور قصبہ قصبہ قائم کردہ تعلیمی اداروں میں تعلیمی فرائض انجام دے رہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں نیپال کے فلاحی فارغین کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان فلاحیوں کی بڑی تعداد تدریس میں مشغول ہے۔ عربی جامعات و مدارس میں تفسیر قرآن مجید، حدیث، فقہ اور عربی ادب جیسے اہم مضامین کی تدریس میں فلاحی علماء پیش پیش ہیں۔ بطور تذکرہ چند اہم نام اس طرح ہیں۔ محمد الیاس فلاحی بھوٹہا، ادریس سعید فلاحی، ریاض الدین فلاحی، انوار عالم فلاحی، ظفیر عالم فلاحی، اطہر علی فلاحی، جمیل احمد فلاحی، ظاہر حسین فلاحی، محمد الیاس فلاحی بھوکرایا، ادریس جمیل فلاحی، تفضل حسین فلاحی، جمیل اختر فلاحی، محفوظ عالم فلاحی، جاوید عالم فلاحی، افروز عالم فلاحی، حفاظ الدین فلاحی، شمیم اختر فلاحی، شمیم قمر فلاحی، حیدر علی فلاحی، روح الامین فلاحی، عمر علی فلاحی، فیروز عالم فلاحی مر سنگھ، ابو الکلام فلاحی، محمد انوار الحق فلاحی، شفیع الرحمان فلاحی، ڈاکٹر عبد الحکیم فلاحی، عبید الرحمن فلاحی، ضیاء الحق فلاحی، عبد الحی فلاحی، محفوظ عالم فلاحی روپندیہی، نظام الدین سراج الدین فلاحی، نظام محمد ابو القاسم فلاحی وغیرہ۔
نیپال میں فارغینِ فلاح نے تعلیم نسواں کے لیے ذہن سازی کی اور مسلمانوں کو نسواں مدارس کے قیام پر آمادہ کیا۔ اس ضمن میں محمد الیاس فلاحی لمبنی، غلام رسول فلاحی، محمد حسن حبیب فلاحی اور طاہر حسین فلاحی کا کردار نمایاں ہے۔ آج کئی جامعۃ البنات ایسے ہیں جن کی تدریسی و انتظامی ذمہ داریاں فلاحی فارغین و فارغات کے کندھوں پر ہیں۔ مثلاً جامعۃ البنات بلکوا بازار ضلع سرہا، جامعۃ المحسنات بھوکراہا ضلع سنسری، جامعۃ الصالحات نور پور ضلع سنسری، جامعۃ المسلمات بھوٹہا ضلع سنسری۔
نیپال کے تناظر میں ہمارے فارغین نے دینی علوم اور جدید عصری علوم پر مشتمل ایسا نصاب تعلیم ترتیب دیا ہے جس میں دین کے ساتھ دور حاضر کی ضرورتوں اور تقاضوں کو معقول جگہ دی گئی ہے۔ اس نصاب کی ترتیب میں محمد حسن حبیب فلاحی، ادریس جمیل فلاحی، غلام رسول فلاحی، ذوالفقار علی فلاحی، نظرالحسن فلاحی اور عارف حسین فلاحی کی مساعی قابل ذکر ہیں۔ یہ جدید نصاب آج نیپال میں ترائی اور پہاڑی، مغربی اور مشرقی مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے درجنوں مدارس اور اسکول میں نافذ العمل ہے۔ملک کے قابل اعتماد مدارس وجامعات میں وہ ادارے شمار کیے جاتے ہیں جو فلاحی علماء کی نگرانی میں جاری ہیں۔ ذیل میں ایسے اہم اداروں کا نام دیا جارہا ہے جو فلاحی فارغین کی نگرانی واشراف میں قائم ہیں:
جامعۃ الاصلاح الاسلامیہ بھوٹہا ضلع سنسری، جامعہ اسلامیہ بھوکراہا ضلع سنسری، جامعۃ المحسنات بھوکراہا، جامعۃ البنات بلکوا بازار ضلع سرہا، جامعۃ المسلمات بھوٹہا ضلع سنسری، جامعۃ الصالحات نور پور ضلع سنسری،آئیڈیل پبلک اسکول نیپال گنج ضلع بانکے،ہلال پبلک اسکول گھسکی ضلع سنسری،مدرسہ دارالسلام مجہنی ضلع کپل وستو،مدرسہ نور الہدیٰ اسلام پور ضلع پالپا،اسلامی پبلک اسکول ششوا ضلع سنسری،مدرسہ حضرت بلال پبلک اسکول چھاتا بیلی ضلع سنسری،ماڈل پبلک اسکول بھوکراہا ضلع سنسری،مدرسۃ العلوم نرسنگھ ضلع سنسری،صفہ آئیڈیل پبلک اسکول بیرگنج، مدرسہ انوار الاسلام ہڑتالی ہاٹ ضلع مورنگ،مدرسہ درارالقرآن مجہنی ضلع کپل وستو،پیراڈائز پبلک اسکول پچہرہ ضلع کپل وستو،سہارا پبلک اسکول کرشنا نگر ضلع کپل وستو،کریسنٹ پبلک اسکول براٹ نگر ضلع مورنگ،میریڈین پبلک اسکول کٹھمنڈو، ماؤنٹ ایورسٹ انگلش اسکول دوہبی، ضلع سنسری،شائنیگ فیوچر اکیڈمی نیپال گنج ضلع بانکے،عائشہ مدرسۃ البنات نیپال گنج ضلع بانکے، مدرستہ اقرأ لتحفیظ القرآن راج براج ضلع سپتری،جامعۃ الاصلاح مسٹر ضلع رونید یہی، ایم ای ایس انگلش بورڈنگ اسکول بیرگنج، مدرسہ نداء الاسلام بیلہا ضلع سنسری،مدرسہ دارالھدیٰ بیابانی ضلع گورکھا،مدرسہ اسلامیہ رائیناس ضلع لمجونگ۔
اس کے علاوہ دینی مدارس واسکول کی نگرانی ورہنمائی کے لئے باقاعدہ ایک تعلیمی سوسائٹی بنائی گئی ہے جس کی قیادت شروع سے فلاحی علماء کرتے آرہے ہیں۔ اس سوسائٹی کے اس وقت نائب صدر محمد الیاس فلاحی لمہنی ہیں جبکہ سکریٹری جنرل کی ذمہ داری ذوالفقار علی فلاحی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل غلام رسول فلاحی کئی سالوں تک سوسائٹی کے جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں۔ اس سوسائٹی کے تحت باقاعدہ ۱۳ مدارس واسکول چل رہے ہیں۔
جامعۃ الفلاح میں شعبہ تدریس سے وابستہ درج ذیل فلاحی فارغین ہیں یا رہے ہیں:
رحمت اللہ اثری، محمد عمران فلاحی، مطیع اللہ فلاحی، اظہار احمد فلاحی،صباح الدین ملک فلاحی، محمد اسماعیل فلاحی، عبدالعظیم فلاحی، رئیس احمد فلاحی، امیر فیصل فلاحی، معین الدین فلاحی، انیس احمد فلاحی،جمیل احمد فلاحی،امتیاز احمد فلاحی،شاہ عالم فلاحی(علائی)،عبدالودود فلاحی، خورشید احمد فلاحی،مصباح الباری فلاحی، عبدالرحمان زریاب فلاحی، حافظ ریاض احمد فلاحی، عرفان احمد فلاحی، نسیم احمد فلاحیؔ ، کمال الدین فلاحی،پرویز عالم فلاحی،شاہد الاسلام فلاحی،جرارا حمد فلاحی، ضمیر الحسن فلاحی، حامد علی ساغر فلاحی، اشتیاق عالم فلاحی، جاوید اشرف فلاحی، جاوید سلطان فلاحی، عبدالبر اثری فلاحی، ولی اللہ سعیدی فلاحی، علی مرتضیٰ فلاحی،ؔ حافظ جہانگیر فلاحی، محبوب عالم فلاحی، مشتاق فلاحی۔
یہاں کی لائبریری اور شعبہ نظامت سے وابستہ درج ذیل فارغین ہیں یا رہے ہیں:
عبدالرحمان خالد فلاحی،عرفان احمد فلاحی(کوہنڈہ)،آفتاب عالم فلاحی ، عطاء الرحمان فلاحی، محمد طارق فلاحی، عبدالرقیب فلاحی،رفیع الدین فلاحی، محمد آصف فلاحی، نہال الدین فلاحی، محمد نسیم فلاحی(بلریاگنج)، مقبول احمد فلاحی، احسن اثری۔
عصری اداروں میں بھی ہمارے بہت سے فارغین پہنچ چکے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد دہلی، طبیہ کالج علی گڑھ، مولانا آزاد (یونیورسٹی حیدرآباد، انٹگرل یونیورسٹی لکھنؤ، وغیرہ اداروں میں ہمارے فلاحی آپ کو ملیں گے۔ ڈاکٹر سید خالد حامدی اور ڈاکٹر محمد اسحاق جامعہ ملیہ دہلی میں، ڈاکٹر اکرم فلاحی دہلی یونیورسٹی میں اور ڈاکٹر اشتیاق دانش جامعہ ہمدرد دہلی میں پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ حکیم عبدالباری فلاحی، جامعہ ہمدرد دہلی میں ہیں۔ ڈاکٹر عبیداللہ فہد، ڈاکٹر فیضان احمد، ڈاکٹر سمیع اختر، ڈاکٹر توقیر عالم، ڈاکٹر ضیاء الدین ملک، توصیف احمد فلاحی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں، ڈاکٹر محمد ارشد (شیخ پور) اورخالد فلاحی بدایونی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں، حافظ معین الدین عابدہ انعامدار کالج فارگرلس پونے میں، عبدالحی شاہد ایک انٹر کالج میں، حبیب احمد جمالی امریکہ میں اور خالد سیف اللہ(رام پور) جامعہ زرقاء اردن میں بحیثیت استاد ہیں۔ فاروق فلاحی، طارق فلاحی طبیہ ناگپارہ، نور محمد بستوی اور شوکت فلاحی طبیہ کالج راجستھان، افضال احمد(چاندپٹی)، ابوسفیان فلاحی، شبلی کالج اعظم گڑھ، ڈاکٹر غفران احمد فلاحی طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں استاد کی حیثیت سے مصروف کار ہیں، ڈاکٹر منور حسینؒ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں، اور حمد اللہ فراہیؒ ایک طبیہ کالج میں لکچرر کی حیثیت میں رہے ہیں۔عبدالعزیز فارس، ارشد جمال فلاحی، انس اظہار فلاحی مختلف طبیہ کالجوں میں تدریسی خدمات انجام دہے ہیں۔ امان اللہ فہد، شکیل احمد، نورالاسلام، شاہد فلاحی، اور سراج الدین فلاحی (بلریاگنج) دہلی کے مختلف معیاری اسکولوں میں بحیثیت استاد اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ شہباز احمد(رانچی) فلاحی بھی ایک عصری سرکاری ادارے میں استاد کی حیثیت سے ہیں۔عطاء الرحمن انوراور ملک راشد فیصل اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی میں ہیں، ڈاکٹر عمیر منظر مولانا آزاد کے لکھنؤکیمپس میں ہیں۔ جرار فلاحی انٹگرل یونیورسٹی میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ صباح الدین بلریا گنج، ڈاکٹروسیم ملک، ڈاکٹر ضیاء الرحمان(بلریا گنج) حافظ جہانگیر(شیخ پور) خلیج کی مختلف ریاستوں میں تعلیم و تدریس میں مشغول ہیں۔ تقویٰ انٹرنیشنل اسکول ریاض میں جاوید سلطان فلاحی، ابوزید فلاحی، شاہد کریم اللہ، سعید اختر، اور جنید احمد تدریس سے منسلک ہیں، اور ان میں سے بیشتر کا درس قرآن کا بھی سلسلہ ہے۔
ڈاکٹر طارق جمیل اور ڈاکٹر محمد احمد(سیوان) نے بھی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں چند سالوں تدریس کی خدمت انجام دی ہے۔نورالہدیٰ لاری نے جامعہ مصباح العلوم (چوکونیاں) میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جامعۃ الطیبات کے نام سے قصبہ لار، ضلع دیوریا میں جو ادارہ قائم ہے، اس کے قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیاہے۔
طارق اکرام اللہ فلاحی، شارق انصاراللہ فلاحی اور احتشام فلاحی کے قائم کردہ اسکول ابوالفضل اور شاہین باغ میں اپنی پہچان بنائے ہوئے ہے، مصلح الدین(اعظم گڑھ) نے بھی دہلی میں ایک اسکول قائم کر رکھا ہے۔ شہاب صاحب(زمین رسول پور) میں ایک اسکول چلا رہے ہیں۔ انیس فلاحی اپنے گاؤں نصیرپور میں اور عبدالعظیم فلاحی نے اپنے گاؤں میں لڑکیوں کی ایک درسگاہ کھول رکھی ہے جو اچھی چل رہی ہے، وہاں سے بچیاں جامعۃ الفلاح آتی ہیں۔ حافظ عطاء الرحمان فلاحی (زمین رسول پور) اپنے والد جناب ماسٹر جلیلؒ کے قائم کردہ نور پبلک اسکول کو حسن وخوبی کے ساتھ چلارہے ہیں۔
مختلف یونیورسٹیوں سے گولڈ میڈل حاصل کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کس کس کا نام لکھا جائے بطور مثال سید خالد حامدی فلاحی نے بی اے اور ایم اے میں یونیورسٹی ٹاپ کرنے کے ساتھ ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیے۔ یونیورسٹی سے جامعہ کے الحاق کے بعد سید خالد حامدی پہلے طالب علم تھے جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں یہ نمایاں کامیابی حاصل کی۔ منور حسین فلاحی مرحوم نے ایم،اے اردو میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے، ڈاکٹر محمد اسحق صدیقی نے۔ بی،اے اور ایم اے تاریخ میں جامعہ ملیہ دہلی سے، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی نے ایم اے سیاسیات میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے، اوصاف احمد فلاحی نے ایم اے عربی میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے، ڈاکٹر سمیع اختر فلاحی نے ایم اے عربی میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے، حافظ معین الدین فلاحی نے جامعہ ملیہ دہلی سے اور فرحان احمد زہری فلاحی نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کئے، ڈاکٹر صلاح الدین ایوب سبحانی نے جامعہ ملیہ سے اکنامکس سے بی اے کے دوران گولڈ مڈل حاصل کیا۔
اسی طرح یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی جانب سے فیلو اسکالر شپ کے مستحق قرار پانے والوں کی لمبی قطار ہے، چند کا ذکر کیا جاتا ہے، جس میں ڈاکٹر منور حسین فلاحی مرحوم، ڈاکٹر سمیع فلاحی، ڈاکٹر توقیر عالم فلاحی، اور ڈاکٹر ابو نافع فلاحی قابل ذکر ہیں۔ یو، جی، سی کی طرف سے منعقد ہونے والے لکچرر شپ ٹسٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے کم نہیں ہیں، محمد طارق بھوپالی فلاحی اور محی الدین ساجد فلاحی، محی الدین غازی، عطاء الرحمن انوروغیرہ قابل ذکر ہیں۔مختلف موضوعات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے لئے ان سب کا نام لینا مشکل ہے۔ بطور مثال چند درج ذیل ہیں:
ڈاکٹر سید خالد حامدی، ڈاکٹر منور حسین، ڈاکٹر عبید اللہ فہد، ڈاکٹر اشتیاق دانش، ڈاکٹر طارق جمیل، ڈاکٹر محمد احمد، (سیوان) ڈاکٹر توقیر عالم، ڈاکٹر ابوالنصر، ڈاکٹر اطہر کمال، ڈاکٹر اطہر حسین، ڈاکٹر نثار احمد، ڈاکٹر محی الدین غازی، ڈاکٹر رضوان رفیقی، ڈاکٹر صلاح الدین ایوب سبحانی نے مختلف موضوعات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یونانی میڈیسن میں ایم ڈی کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جیسے حافظ شوکت فلاحی، طارق احسن فلاحی،(بلریاگنج)، غفران احمد فلاحی، عبدالعزیز فارس، وسیم احمد فلاحی، انس اظہار فلاحی، ارشد جمال فلاحی قابل ذکر ہیں۔
قاری عرفان احمد شمسی مرحوم کو جامعہ ازہر قاہرہ میں بین الاقوامی تجوید کے مقابلہ میں اول انعام حاصل کرنے پر عالم اسلام کے متعدد ممالک کے سفر کی سہولت فراہم کی گئی۔ رابطہ عالم اسلامی اور افسو(الاتحاد الاسلامی العالمی للمنظمات العلابیۃ) کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر عبیداللہ فہد نے چین کے مسلمانوں کی سماجی، تہذیبی، معاشی اور دینی صورتحال کا جائزہ لیا، ڈاکٹر اشتیاق دانش برطانوی شہر لیسٹرمیں واقع اسلامک فاؤنڈیشن میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان باہمی تعلقات کے پروجیکٹ پر ریسرچ فیلور ہے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان احمد فلاحی نے برمنگہم یونیورسٹی سے ایم فل کیا ہے۔
تعلیم کے مختلف میدانوں میں فلاحی برادران نے جو مسابقت کی ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے۔
سیاسی وسماجی خدمات
اسلام کی نگاہ میں دین ودنیا ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں ہیں۔ وہ دین کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتا۔ع
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ہمارے فارغین سیاسی میدان میں بھی کسی حدتک دخیل ہیں وہ جس معاشرہ میں رہتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس کے بھلے برے سے بے تعلق ہوں۔ بلکہ ان کا وزن خیر وصلاح کے پلڑے میں پڑتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد، اپنے معاشرہ میں سیاست کو صحیح رخ دیتے، اور اپنے معاشرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سماجی خدمات کا جہاں تک تعلق ہے، دعوت وتحریک سے وابستہ کوئی فرد اپنے سماج سے بے تعلق کیسے رہ سکتا ہے۔ لوگوں کی خدمت کرنا، ان کے بھلے برے میں کام آنا، ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی، ضعیفوں، کمزوروں، مجبوروں کی خبر گیری، بے روزگار کو روزگار فراہم کرنا، لوگوں کی ضرورتوں میں ان کے کام آنا، ان کے دوا علاج کی فکر کرنا، پڑوس کی خبر رکھنا، برادران وطن سے خوشگوار تعلقات بنائے رکھنا، آفات ارضی وسماوی میں ان کے کام آنا، شرپسندوں کی کوششوں کو ناکام کرنا، مظلوموں کا ساتھ دینا اور سب سے بڑھ کر انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرنا یہ فارغین کا امتیاز ہے۔ ان میں کس کس کا نام لیا جائے۔ان میں چند نام بہت ہی نمایاں ہیں، ابوبکر صدیق فلاحی مرحوم، مشرف حسین صدیقی فلاحی، ادہم فلاحی، نعیم احمد غازی فلاحی، شمس الدین فلاحی، ڈاکٹر ملک محمد فیصل فلاحی، صباح الدین ملک فلاحی، جاوید بیگ فلاحی، عابد بیگ فلاحی، مطیع الرحمن حنیف فلاحی، موسی کلیم فلاحی، اکرام الرحمن فلاحی، انعام اللہ فلاحی ( حال مقیم ریاض)وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے فارغین اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ اس کام کے لئے معتدبہ تعداد نے فن طب کو بھی اختیار کر رکھا ہے۔ کسی بھی سماج کے سب سے بڑے محسن دو ہیں ایک استاد دوسرا حکیم وطبیب۔ فلاحی ڈاکٹروں حکیم ابوذر فلاحی، ڈاکٹر یونس فلاحی، ڈاکٹر عبدالقوی فلاحی، ڈاکٹر عبدالرحمن خالد، ڈاکٹر نسیم احمد، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر احسان احمد، ڈاکٹر طارق احسن(بلریا گنج)، ڈاکٹر مظفر الاسلام (علاء الدین پٹی)، ڈاکٹر غفران احمد اعظمی، ڈاکٹر محمد شعیب کانپور، ڈاکٹر شمیم الرحمان گونڈہ، ڈاکٹر حافظ محمد شوکت کانپور، ڈاکٹر حافظ صباح الدین زمین رسولپور، ڈاکٹر حافظ ظفر احمد میرٹھی، ڈاکٹر اسرار احمد جیراج پوری اور دوسرے فلاحی ڈاکٹروں کا نام ڈاکٹر ملک فیصل، ڈاکٹر فیصل اقبال، ڈاکٹر فیضان احمد بلریا گنج، ڈاکٹر عبیدالرحمن غازی نئی دہلی لیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ ڈاکٹر ہیں جو لوگوں کو لوٹنے کے بجائے ان کی خدمت کرتے ہیں۔
سوشل ورک کے میدان میں بھی ہمارے متعدد ساتھیوں نے قدم رکھا ہے۔ نجم الثاقب فلاحی اور راشد جمال فلاحی نے ماسٹر آف سوشل ورک کیا ہے۔ اس فیلڈ میں اور بھی ساتھی کام کررہے ہیں، جن کا نام اس وقت ذہن میں نہیں ہے۔
عملی سیاست میں بھی ہمارے بعض فلاحی شریک رہے ہیں۔ڈاکٹر محمد اسحاق اور سید راشد حامدی فلاحی اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنی اپنی فیکلٹیز سبجیکٹ ایسوسی ایشن کے سکریٹری رہے ہیں۔ پھر دونوں اسٹوڈنٹس جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے کونسل ممبر ہوئے۔حافظ معین الدین فلاحی اسٹوڈنٹس یونین جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نائب صدر اور کارگزار صدر بھی رہے ہیں۔ حافظ معین الدین فلاحی اور سید راشد حامدی کیبنیٹ ممبر بھی رہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین ایوب جامعہ ملیہ میں سینئرہاؤس مانیٹر رہے۔ حافظ محمد اعظم بیگ فلاحی اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ یونین کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ انہیں ملے ہیں۔ حافظ ارشاد مخدوم پوری فلاحی گوپال پور حلقہ (اعظم گڑھ) سے جیت کر اسمبلی ممبر رہے ہیں۔
یہاں میں اس گفتگو کا حوالہ ضروردینا چاہوں گا جس میں، بحیثیت مجموعی تمام فلاحیوں پر تبصرہ ہے۔ جامعہ کے ایک سابق استاد مفتی عبدالرؤف قاسمی صاحب نے سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی سے۲۰؍دسمبر ۱۹۸۸ ؁ کو اساتذہ جامعہ کی ایک نشست میں پوچھا تھا کہ ’’مولانا! کیا بات ہے، سات آٹھ سال طلبہ ہمارے درمیان رہتے ہیں لیکن یہاں سے دوسرے اداروں میں جاکر وہاں کا اثر بہت جلد قبول کرلیتے ہیں اور اپنی خو، بو بھول جاتے ہیں‘‘ مرحوم امیر جماعت نے بڑے اطمینان اور شرحِ صدر کے ساتھ جواب دیا تھا ’’…….بحیثیت مجموعی آپ کی بات صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک جامعۃ الفلاح کا تعلق ہے تو میرا اپنا تأثر یہ ہے کہ جامعہ کے طلبہ دیگر درسگا ہوں کے مقابلہ میں اس درجہ متأثر نہیں ہوئے ہیں جتنا دیگر درسگاہوں کے طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ آپ کا کام یہ ہے کہ جو طلبہ فارغ ہورہے ہیں ان سے بے متعلق نہ ہوں، ان سے ربط رکھیں۔‘‘
فارغین جامعہ کی خدمات نامکمل سمجھی جائیں گی اگر انجمن طلبہ قدیم کا تذکرہ نہ ہو۔ مولانا شہباز اصلاحیؒ نے اس کے اجلاس عام کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا ’’……یوں تو کم وبیش سبھی مدرسوں میں طلبہ قدیم کی انجمنیں قائم ہیں لیکن بیشتر بس نام کی ہیں۔ مدرسہ کے کسی بڑے جلسہ کے وقت آنے والے طلبہ مل بیٹھتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مقام پر چلے جاتے ہیں۔ کوئی مستقل پروگرام نہیں چلتا۔ لیکن الحمدللہ آپ کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ میری معلومات کی حد تک آپ کی انجمن طلبہ قدیم شاید واحد انجمن ہے جو مستقل پروگرام رکھتی ہے، مادرعلمی سے قلبی تعلق رکھتی ہے، وہاں کے ذمہ داروں کے خلاف محاذ بنانے کے بجائے تعاون کرتی ہے، اپنے پیش رو اور پس رو ساتھیوں کی خبرگیری کرتی اور ممکن تعاون کرتی ہے، یہ میرے ہی لئے نہیں، ہر اس شخص کے لئے جو جامعہ سے قلبی لگاؤ رکھتا ہے، انتہائی خوشی کی بات ہے۔ آپ کی انجمن ایک فعال اور سرگرم انجمن ہے، میں آپ کو کیا پیغام دوں۔ میں خود آپ کی سرگرمیوں سے اپنے دل کی بجھتی ہوئی حرارت کو بچانے میں مدد لیتا ہوں…….‘‘
ترجمہ ، تصنیف ، صحافت اور ادب
آج کے موجودہ دور میں ترجمہ، تصنیف، صحافت اور ادب سے کسے مجال انکار ہے، ایک شخص کسی دور دراز گوشہ میں بیٹھ کر اس کے ذریعہ اپنی باتیں لاکھوں انسانوں تک پہنچا سکتا ہے۔ فارغین جامعہ کا نصب العین احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ یہی مقصد ان کی تصنیفات، ترجموں، صحافت اور ادبی نگارشات میں نظر آتا ہے۔
اب تک کی پچھلی گفتگو میں بہت ساری تصنیفات اور ترجموں کا ذکر گذرچکا ہے، یہ تصنیفات اور ترجمے ادب کی خدمت نہیں ہیں۔ ادب تو نام ہی حسن کلام اور تاثیر کلام کا ہے۔ کیا اس سے ہمارے فارغین کی تصنیفات اور ان کے ترجمے خالی ہیں؟ ہم شبلی نعمانی اور مولانا آزاد کی بات تو نہیں کرتے لیکن یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتے کہ فارغین کی یہ کاوشیں ادبِ عالی کا مقام رکھتی ہیں۔
اپنے مصنفین میں ابوالمکارم فلاحی، حبیب احمد جمالی، مولانا رحمت اللہ اثری، خالد سیف اللہ فلاحی(اردن)، نسیم احمد غازی، ڈاکٹر خالد حامدی، ڈاکٹر محمد اسحاق (سیوان)، خورشید احمد فلاحی، عبید اللہ فہد، ڈاکٹر اشتیاق دانش، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر طارق جمیل، ڈاکٹر فیضان احمد(علیگڑھ)، عبدالعزیز سلفی، عبدالبراثری، ڈاکٹر توقیر عالم، ڈاکٹر سمیع اختر، ڈاکٹر محمد احمد (سیوان)، محی الدین ساجد، اطہر احسن مستقیمی، اطہر کمال، مجاہد احسن، مجاہد شبیر (کشمیر)، ڈاکٹر محی الدین غازی، جاوید سلطان، شاہد کریم اللہ، ابوزید(بسہم)، علاء الدین(نیپال)، طاہر حسین(نیپال)، نظرالحسن(نیپال)، ادریس جمیل، نیپال، حسن حبیب نیپال، ذوالفقار علی، ضمیرالحسن فلاحی (علی گڑھ) عامر عارف (نیپال)، ڈاکٹر مسعود عالم، انیس احمد مدنی، ڈاکٹر صلاح الدین ایوب، ذکی الرحمن غازی، ڈاکٹر عمیر منظر، سید راشد حامدی، رضوان رفیقی فلاحی، ثاقب عمران فلاحی کے نام قابل ذکر ہیں۔آفتاب عالم فلاحی (نجمی) نے بھی تصنیفی میدان میں بالخصوص نثری ادب میں کافی کام کیا ہے۔ ذکی الرحمان غازی جامعۃ الفلاح میں جمعیۃ الطلبہ کے سکریٹری رہے، ساتھ ہی ایس آئی او کے ذمہ دار بھی رہے۔ اس وقت جامعۃ الفلاح میں استاذ ہیں۔ ان کی ایک درجن سے زائد ترجمہ اور تصنیف کردہ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔
ڈاکٹر خالد حامدی کی پی ایچ ڈی کا موضوع مساھمۃ الھند باللغۃ العربیہ فی علوم الحدیث النبوی تھا۔ یہ ۶ جلدوں میں ہے۔ ان کی مطبوعات کی تعداد ۱۳ ہے۔(مضامین اردو، عربی، ہندی میں) تقریباً پانچ سو ہیں جو ہندوپاک کے رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کی اہم مطبوعات میں نام لیا جاسکتا ہے۔ ۱۔ عربی زبان وادب۔ ایک تاریخی مطالعہ۲۔ ویدک دھرم سوامی دیانند سرسوتی کے نقطہ نظر سے ۳۔ تلاش اقبال(مرتبہ) ۴۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ حالات، دینی خدمات۔۵۔ میں نے اسلام کیوں قبول کیا۔(اردو،ہندی، آسامی)۶۔ہمارا اسلام قبول کرنا۔(مرتبہ)
ڈاکٹر عبیداللہ فہد کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
خدا کی بستی میں سفر نامہ لاہور واسلام آباد،اسلام کی سیاسی فکر اور مفکرین۔ پہلی صدی ہجری سے شاہ ولی اللہ دہلوی تک،اسلامی عمرانیات۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار کا مطالعہ،اخوان المسلمون۔تزکیہ، ادب شہادت،احیائے دین اور ہندوستانی علماء۔ نظریاتی تفسیر اور عملی جدوجہد،مدارس اسلامیہ کی دینی ودعوتی خدمات،دیوارچین کے سائے میں۔ ایک سفرنامہ، سیاست الہلال اور ہندوستانی مسلمان، سید قطب شہید حیات و افکار، تاریخ دعوت وجہاد برصغیر کے تناظر میں،اس کے علاوہ انگریزی میں نو، دس کتابیں ہیں۔
ڈاکٹر محمد احمد صاحب کی ایک اچھی سی کتاب’’ہندو مسلم تعلقات کی خوشگوار یادیں‘‘ ابھی چند سالوں قبل منظر عام پر آئی ہے۔ضمیرالحسن خاں فلاحی کی متعدد کتب اور تراجم مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوچکے ہیں۔ راقم کی ترتیب کردہ ایک کتاب’’ذکر شہباز‘ ‘ ہے جو مختلف جہتوں سے اپنی اہمیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر سمیع اختر فلاحی، پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
عربی تنقید نگاری: قدیم وجدید رجحانات ایک مطالعہ، علامہ عبدالعزیز میمنی: حیات وخدمات، امت مسلمہ کی تعمیر، عربی کتابوں کے تراجم کے ذیل میں: انقلابی شخصیات، شیخ شہید حسن البنا، فلسطین سازشوں کے نرغے میں، تحریک اسلامی: ایک جائزہ، تحریک اسلامی کو درپیش سیاسی چیلنجز، دعوت اسلامی کے جدید تقاضے، تضامن اسلامی اور مملکت سعودی عرب، غلبہ اسلام کی بشارتیں، اسلامی تہذیب کا روشن مستقبل، طلبہ تحریک:سرگرمیاں، مسائل اور رہنمائی، بیت المقدس اور تہذیبی کشمکش، تربیتی نقوش قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر توقیر عالم (علی گڑھ)کے تقریبا ڈیڑھ سو مقالات ملک وبیرون ملک کے مجلات وجرائد کی زینت بن چکے ہیں۔ کم وبیش پچاس مقالات قرآن سے متعلق ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے ایک سو دس سمیناروں میں مقالات اور محاضرات پیش کئے ہیں۔ ۲۳؍ کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
علماء سلف کی قرآن فہمی، قرآن سرچشمہ فکروفن، عہد عباس کے چندائمہ علم وفن،اسلام میں کامیابی کا تصور، سرسید کا اصلاحی مشن، تحریک اسلامی اور مساجد، اسلام کا نظریۂ امن، مطالعہ دینیاتِ اسلام (تھیالوجی کے کورس میں یہ کتاب دس سالوں سے شامل ہے)، اصلاحِ معاشرہ اور دعوت وتبلیغ کا قرآنی طریقہ کار، سرسید کا دینی شعور ،ہندوستانی مذاہب، مطالعہ ہندو دھرم، افکارِ سرسید کی عصری معنویت، احیائے اسلام کی عالمی جدوجہد اور موجودہ چیلنجز ، دی ہولی قرآن اینڈ دی اور نٹیرلسٹ، برٹش اسٹڈیز ان دی قرآن، اسٹڈیزان مسلم تھیالوجی (یہ بھی شعبہ دینیات کے کورس میں داخل ہے۔)
محمد شاہد کریم اللہ (بندول) جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض کے کلیۃ الشریعہ میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے ایم اے کے مقالہ کا عنوان تھا مسائل الامام احمد بروایۃ ابی طالب المشکانی فی کتاب العقدوالنکاح والطلاق والخلع والایلاء۔جمعاًودراسۃ۔ اس میں امتیازی نمبرات سے پاس ہوئے ہیں اور پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوگیا ہے۔
مجاہد شبیر فلاحی(کشمیر) کی تصنیفات درج ذیل ہیں:
اجتماعیت کا دینی تصور اور عصر حاضر کے تقاضے،اسلام بحیثیت نظام زندگی،نیکی کا قرآنی تصور،غزوۂ احزاب: عالمی حالات کے تناظر میں، روزہ اور رمضان: تعارف اور پیغام، حیا کا اسلامی تصور،فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم۔(پانچ احادیث کے دروس)،ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم(سات احادیث کے دروس)،مجموعۂ احادیث(خرم مرادؒ کے مرتب کردہ چالیس احادیث کی مکمل تشریح)۔
مختلف زبانوں سے کتابوں اور مضامین کے مترجمین کی بھی ایک خاصی تعداد ہے۔ ابوالمکارم فلاحیؔ ، مظہر سید عالم فلاحی، نسیم احمد غازی فلاحی، عبدالحق فلاحی(بستی)،سید راشد حامدی فلاحی، عبدالحی فلاحی (گیا)، عبدالحلیم فلاحی (کوہنڈہ)، رضوان احمد فلاحی(لندن)، ڈاکٹرعبیداللہ فہد فلاحی، ڈاکٹر سمیع اختر فلاحی، مزمل حسین فلاحی، حافظ احسان الحق فلاحی، جاوید احسن فلاحی، قاسم ذکی فلاحی، زین العابدین فلاحی،ڈاکٹر محی الدین غازی، اکرام الرحمان فلاحی، (ململ) عابد بیگ فلاحی وجاوید بیگ فلاحی، ذکی الرحمن غازی، ابوالاعلیٰ سید سبحانی، شمشاد حسین فلاحی، عبدالرحمان زریاب فلاحی، شاہ عالم فلاحی، اشتیاق عالم فلاحیؔ ، ذوالقرنین حیدر سبحانی نمایاں ہیں۔
ڈاکٹر منور حسین فلاحیؒ ، طارق فار قلیط فلاحی، شمشاد حسین فلاحی، ڈاکٹر محی الدین غازی، اور ابوالاعلی سید سبحانی ’’رفیقِ منزل‘‘ کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ طارق حسین فلاحی بھی ایک زمانہ میں اس سے وابستہ تھے۔ اس وقت ابوالاعلیٰ سید سبحانی رفیق منزل اور حیات نو دونوں کے ایڈیٹر ہیں۔ جامعہ اسلامیہ شانتاپرم سے شائع ہونے والے یادگار مجلہ میں ابوالاعلی اعزازی مدیر رہے۔ دعوت کے کئی خصوصی شماروں’’مسلم دنیا: انقلاب کی دستک‘‘، ’’حیات طیبہ کا دعوتی پہلو‘‘، ’’غزہ: تاریخ فلسطین کا ایک اہم باب‘‘ میں پرواز رحمانی کے معاون خصوصی یا معاون اعزازی کے طور پر بھی ابوالاعلیٰ سید سبحانی کا نام موجود ہے۔ ابوالاعلی سید سبحانی سے قبل قاسم سید فلاحی اور ڈاکٹر محمد ارشد بھی دعوت میں اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ شمشاد حسین فلاحی رفیق منزل کے علاوہ گزشتہ زائد از دس سالوں سے ماہنامہ حجاب اسلامی کی ادارت فرمارہے ہیں۔ ڈاکٹر محی الدین غازی نے جماعت اسلامی کے عربی خبرنامہ کی ادارت بھی فرمائی۔
اس وقت صحافت کے میدان میں قاسم سید فلاحی کا نام نمایاں ہے۔ موصوف روزنامہ اردو خبریں کی ادارت فرمارہے ہیں۔ اس کے علاوہ دانش ریاض فلاحی ممبئی بھی معیشت کی ادارت اور اپنی صحافتی سرگرمیوں کے سبب معروف ہیں۔ ممتاز عالم فلاحی جماعت اسلامی کے انگریزی ویب پورٹل انڈیا ٹومارو کے ایڈیٹر ہیں۔ سید راشد حامدی فلاحی روزنامہ جریدہ انٹرنیشنل ٹائمز دہلی کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ مجاہد شبیر فلاحی اور ذاکر حسین فلاحی ماہنامہ پیام کے ایڈیٹر رہے۔ عزیز نبیل فلاحی ’’دستاویز‘‘ کے ایڈیٹر ہیں۔
عبید اللہ فہد، مزمل حسین فلاحی، اشتیاق دانش فلاحی، فرحان احمد زہری، عبدالعزیز سلفی، حسن حبیب فلاحی، عبدالحمید فلاحی(بستی)، عبدالرب اثری موومنٹ کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں۔ جاوید اشرف فلاحی، راشد حامدی فلاحی، نور محمد فلاحیؒ ، انصار احمد فلاحیؒ ، حافظ احسان الحق فلاحیؔ ، طارق فارقلیط فلاحیؔ ، ولی اللہ سعیدی فلاحی، عبدالبراثری فلاحی، زبیرملک فلاحی اور راقم نے مختلف اوقات میں مجلہ حیات نوکی ادارت سنبھالی ہے۔
ڈاکٹر محمد اسحاق پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، ماہنامہ’’جامعہ‘‘ کے سابق مرتب اور’’اسلام اور عصر جدید‘‘ دہلی کے معاون مدیر رہے ہیں۔ حسن حبیب فلاحی سہ ماہی’’پیغام‘‘(نیپال) کے چیف ایڈیٹر اور محمد ادریس بن جمیل فلاحی ایڈیٹر رہے ہیں۔ محمد ادریس سعید فلاحی بھی اس رسالہ کے مدیر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ اس وقت ذوالفقار علی فلاحی مدیر کے فرائض اور سراج احمد برکت اللہ فلاحی مدیر معاون کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، نیپال میں جو نیپالی ماہنامہ مدھر سندیش کے نام سے سترہ سالوں سے مسلسل شائع ہورہا ہے، اس میں فلاحی برادران اپنا مضمون لکھتے رہتے ہیں۔ اس نیپالی رسالہ کے مستقل قلم کاروں میں علاو الدین فلاحی، ذوالفقار علی فلاحی، نظرالحسن فلاحی اور عامر عارف فلاحی کے نام قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر محمد احمد فلاحی ملّی ٹائمز(دہلی) کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ اس وقت’’ادارہ تحقیق وتصنیفِ اسلامی‘‘ علی گڑھ کے منیجر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ عبدالحی فلاحی (گیا) ’’دعوت‘‘ اور قومی آواز‘‘ میں کام کرنے کے بعد امریکن ایمبیسی کے انفارمیشن سنٹر میں چیف نیوز ایڈیٹر رہے ہیں۔ابو المکارم فلاحی، شبیر فلاحی(دہلی)، طارق اکرام اللہ فلاحی، رضوان احمد فلاحی (لندن) اور افکار احمد فلاحی جماعت کے عربی رسالہ’الدعوۃ‘‘ میں مختلف اوقات میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کرتے رہے ہیں۔ عبدالحق فلاحی، نسیم غازی فلاحی ہندی کے اچھے مضمون نگاروں میں ہیں۔ حکیم عبدالباری، صباح الدین ملک فلاحی، ضیاء الدین ملک فلاحی، احسان اللہ فہد فلاحی، عبد الحی شاہد فلاحی، طارق احسن فلاحی(گیا) محمد احمد فلاحی، محی الدین غازی اچھے مضمون نگاروں میں ہیں اور صحافتی تجربہ اور بہترین ا دبی ذوق رکھتے ہیں۔
عبداللہ علائی فلاحی ممبئی کے ایک کالج میں جرنلزم کے استاد ہیں۔ اسجد نواز (بہار) بنگلور سے شائع ہونے والے ’’سہارا‘‘ کے مدیر رہے۔ سبطین کوثر موتیہاری، مشرقی چمپارن روزنامہ سہارا سے ۲۰۰۶ء سے وابستہ ہیں اور اس وقت چمپارن کے زونل چیف ہیں۔ اردو سہارا کے ٹی وی چینل میں متعدد فلاحی ہیں جن میں نعمان فلاحی(ارریہ، بہار) بھی ہیں۔
الکٹرانک میڈیا میں صداقت حسین، اسامہ مدنی (بھاگلپور)، یاسر افتخار (بدایوں) کے علاوہ اور بھی کئی فلاحی ہیں۔ سید راشد حامدی فلاحی ڈی ڈی اردو کے ایڈیٹر ہب میں بطور لینگویج ایکسپرٹ کام کرتے رہے ہیں اور کے ایم آصف اعظمی فلاحی ڈی ڈی اردو میں ڈائرکٹر کی سطح کے کنسلٹنٹ رہے ہیں۔ ظل الرحمن (بہار) بھی صحافت سے وابستہ ہیں۔ ایک فلاحی ریڈینس میں بھی ہیں۔
ڈاکٹر خالد حامدی صاحب کا ماہنامہ رسالہ’’اللہ کی پکار‘‘ جو دینی، دعوتی اور تربیتی موضوعات پر مبنی ہے، سالوں سے شائع ہورہا ہے۔ امتیاز وحید فلاحی(بہار) کے مضامین رفیق منزل کے علاوہ بعض دوسرے رسالوں کی بھی زینت بنے۔ 2001 ؁ میں جے این یو سے صحافت کے ایک جزوقتی کو رس کے دوران انڈین کونسل فارکلچرل ریلیش(ICCR) کے سارک ممالک سطح کے تحریری مقابلہ بعنوان’’مولانا ابوالکلام آزاد اور مسلم معاشرہ کی اصلاح‘‘ میں انھیں دوسرا انعام دیا گیا۔ اس کے بعد یوجی سےNETبھی پاس کیا۔ ان کی ایم فل کا موضوع’’پیروڈی‘‘ تھا۔پیروڈی کا تعلق اصناف سخن میں فکاہیہ ادب سے ہے۔ یہ قدر نووارد صنف ہے جو یونان سے چل کر انگریزی ادب کے راستے اردو ادب کا حصہ بنی۔اس فن پر آپ کی کئی کتابیں بطور خاص ’’پیروڈی کا فن‘‘ منظرعام پر آچکی ہیں۔آپ کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا’’اردو مکاتیب میں نو آبادیاتی ہندوستان کا سیاسی وسماجی منظرنامہ‘‘ ۔ یہ ایک اہم فکری گوشہ ہے جو مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال سے بالواسطہ تعلق رکھتا ہے۔
طارق احسن فلاحی (گیا) کی تقریباً چالیس کہانیاں اور افسانے درج ذیل رسالوں اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ماہنامہ ہدیٰ ڈائجسٹ دہلی، ماہنامہ طلوع، کشمیر، ماہنامہ رفیق پٹنہ، ماہنامہ حیات نو، جامعۃ الفلاح، ماہنامہ الحسنات رام پور، ماہنامہ ذکریٰ رام پور، ماہنامہ جنت کا پھول رام پور، ماہنامہ جنت کا پھول رام پور، ماہنامہ رام پور، ماہنامہ اچھا ساتھی بجنور، ماہنامہ حجاب رام پور، ماہنامہ بتول رام پور۔
سید راشد حامدی فلاحی اس وقت ادارہ ادب اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے رکن ہیں ا ور بطور خازن اس کے ذمہ دار بھی ہیں۔ ادبی وصحافتی، سیاسی وسماجی اور معاشرتی مسائل پر ان کے بے شمار مضامین مختلف جرائد اور رسائل کی زینت بنتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ضیاء الرحمن فلاحی (ارریہ) حال مقیم جامعہ اسلامیہ شانتاپرم ادارہ ادب اسلامی ہند منصورہ، ہاسن کے سابق سکریٹری رہ چکے ہیں۔ اس وقت ادارہ ادب اسلامی ہند شانتا یورم، کیرلہ کے سکریٹری ہیں۔ ان کی کتابیں ہیں۔ آسان اردو اسباق(غیر اردو دانوں کے لئے)، علامہ اقبال اور احمد شوقی کے افکار کا تقابلی مطالعہ (پیش لفظ: ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانی)، جدید دور میں اردو اور عربی شاعری کے رحجانات کا تقابلی جائزہ، شعری مجموعہ ۔
متعدد فلاحی شعرگوئی کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ سید راشد حامدی فلاحی اور عزیز نبیل فلاحی اس سلسلے کے نمایاں نام ہیں۔ حافظ احسان الحق فلاحی(عارف آئمی)، پروفیسر اشتیاق دانش، سرفراز بزمی، نعیم احمد غازی فلاحی، ڈاکٹر محی الدین غازی، ریاض قاصد، سالم سلیم، عمیرمنظر، نوشاد اشہر، محمداکمل فلاحی، صادق ظلی، خبیب کاظمی، نعمان انور، ارشد جمال وغیرہ بھی اچھی شاعری کرتے ہیں۔
ادب کے میدان میں فلاحیوں کی خدمات پر الگ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ متعدد فلاحیوں نے اردو سے پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ہے۔ نثری وشعری ادب میں بھی متعدد فلاحیوں کی نمایاں خدمات ہیں، ان کا ریکارڈ اب تک جمع نہیں ہوسکا۔ ممکن ہوا تو پھر کبھی اس پر بھی قلم اٹھایا جائے گا۔
اسی طرح عربی زبان میں ہمارے فارغین کی کیا خدمات ہیں، ان پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا کے میدان میں بھی فارغین جامعہ کی زبردست خدمات ہیں، ان کو بھی جمع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کچھ تفصیلات تھیں جو راقم نے اپنی محنت اور بعض مخلص ساتھیوں کے تعاون سے جمع کردی ہیں، حتی الامکان اس میں ناموں اور میدان ہائے کار کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن مصروفیات کے سبب شائد بہت سے نام چھوٹ گئے ہوں۔ مجھے خوشی ہوگی کہ جن حضرات کے نام چھوٹ گئے ہیں، وہ مجھے اپنی تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔ اس سلسلے میں کچھ مزید تفصیلات بھی فراہم ہوسکیں تو اچھا رہے گا۔ ان شاء اللہ کسی مناسب موقع سے فلاحیوں کی خدمات پر مشتمل ایک اچھا ریکارڈ شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی، واللہ ولی التوفیق ۔