غزل – صد شکر وہ جفاؤں کے سانچے میں ڈھل گئے

صد شکر وہ جفاؤں کے سانچے میں ڈھل گئے
ہم محوِ خواب ہونے سے پہلے سنبھل گئے

جن کی وفا پہ مجھ کو بہت ناز تھا کبھی
آیا جو وقت وہ بھی نگاہیں بدل گئے

وحشت شبِ فراق سے ہوتی بھی کیا ہمیں
داغِ جگر چراغوں کی مانند جل گئے

پیکر تراشوں کیسے کہ اب نالہ ہائے دِل
لفظوں کے اختیار سے باہر نکل گئے

تھا چاہیے تو یہ کہ بدلتے مزاجِ وقت
یہ کیا کہ ہم بھی وقت کے سانچے میں ڈھل گئے