علماء کا مطلوبہ رول

اسلام میں علم اور تعلیم کی اہمیت سے ہر صاحب علم مسلمان بخوبی واقف ہے۔ غارحرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی چند آیتیں نازل ہوئیں وہ علم، تعلیم وتعلم اور فن کتابت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ اللہ تعالی کے نسل انسانی پر ان گنت احسانات ہیں مگر ان میں سے علم وتعلیم جیسے احسانات کو اولیت دینا بے مقصد نہیں ہے۔ دراصل علم ہی انسان کو دوسری مخلوقات سے ممیز کرتا ہے اور اسی علم کی بدولت وہ دوسری زیادہ طاقتور مخلوقات پر فوقیت وغلبہ حاصل کئے ہوئے ہے۔
علم انسان کو براہ راست اللہ تعالیٰ سے بھی ملتا ہے یعنی وحی کی شکل میں جو اس نے اپنے برگزیدہ بندوں پر نازل کی اور وہ بھی علم ہے جو انسان اپنے تجربے سے، یا عقل کے استعمال سے حاصل کرتا ہے۔ چونکہ عقل انسان کو اللہ تعالی سے ملی ہے اس لیے عقل اور تجربے سے حاصل کردہ علم بھی اللہ تعالی ہی کا عطاکردہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کی طبیعت علم کو دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔
تخلیق آدم کے تعلق سے اللہ تعالی اور فرشتوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ قرآن مجید میں اس مقصد سے بیان ہوا ہے کہ علم کی اہمیت ہر کس وناکس پہ واضح ہوجائے۔ اور علم اسماء کا ذکر مجرداََآیا ہے یعنی صفات دین ودنیا کی قید سے آزاد۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو عالم وہ شخص ہے جس کے پاس علم اسماء ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ وحی اور اس کی بنیاد پر پیدا ہونے والے علوم کے ساتھ ان علوم کو بھی جانتا ہے جنہیں اجتماعی انسانی عقل وشعور نے جنم دیا ہے۔ قرآن مجید دونوں علوم میں فرق کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس لیے ہمیں یہ فرق کرکے غیرقرآنی عمل کا ارتکاب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آسان لفظوں میں ایک عالم کو اپنے مذہب کے ساتھ اس دنیا کو بھی جاننا چاہئے جس میں ہم جی رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں عالم کی تعریف یہ قرار پائی ہے کہ وہ قرآن،حدیث اور فقہ کا مطالعہ رکھتا ہے۔ اگر اس کے پاس اس دنیا کا بھی علم ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں تو یہ اضافی علم ہے۔ مگر فی الواقع ہونا یہ چاہئے کہ قرآن اور حدیث وفقہ کے ساتھ گردوپیش کی دنیا کے علم کو بھی لازمی قرار دیا جائے ہراس شخص کے لیے جسے ہم عالم کہتے ہیں۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کا بالخصوص علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں دینی ودنیاوی علوم کی تفریق نظر نہیں آتی۔ علماء قرآن وحدیث اور تفسیر وفقہ کے ساتھ اپنی دنیا کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے سماجی رول کو بخوبی انجام دیا۔
عالم کو بالکل ویسے ہی ہونا چاہئے جس طرح آج کل دانشور ہوتے ہیں۔ عالم کو اسلام کے گہرے مطالعے کے ساتھ اس دنیا کی بھی پوری سمجھ ہونی چاہئے جس میں ہم جی رہے ہیں، تاکہ بدلتے حالات میں ابھرنے والے نئے مسائل کے بارے میں صحیح اسلامی تعلیمات کو واضح کرسکے۔
ذرا ہم قرآن، حدیث اور فقہ کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ قرآن وہ کلام ربانی ہے جو آخری رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ حدیث وہ کلام ربانی ہے جو نبیؐ کی زبان سے ادا ہوا، یا وہ عمل ہے جسے آپؐ نے انجام دیا یا کسی کو کوئی کام کرتے دیکھا تو اس سے منع نہیں فرمایا، بلکہ خاموش رہ کر اس کی اجازت دی۔ قرآن اور حدیث کو سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے درکار علم کو فقہ کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فقہ قرآن وحدیث کی انسانی تفہیم کو کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں تبدیلی ممکن نہیں لیکن فقہ میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی کسی خاص زمان ومکان میں تفہیم وتنفیذ کیسے ممکن ہوگی، اگر عالم کو زمان ومکان کا علم ہی نہیں ہوگا؟
ہمارے عہد میں علماء کا کردار ان کی استعداد ومیلان کے مطابق مختلف ہوسکتا ہے۔ قرآن وحدیث اور ’’ترقی پذیر‘‘ فقہ کے گہرے مطالعے کے ساتھ اپنے زمان ومکان کا گہرا شعور اور علم بھی ضروری ہے۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ سابقہ ادوار کے مقابلے میں زیادہ کمپلیکس ہے اور کثیرالجہات ہے۔ شاید کیا، یقینی طور پر کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہیں کہ ہماری اس دنیا کے تمام پہلوؤں کا تنہا مطالعہ کرسکے اور اچھی طرح سمجھ بھی سکے۔ غالباََ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء اجتماعی اجتہاد کی ضرورت کو تدریجاََ محسوس کرتے جارہے ہیں۔ اگر ہمارا زمانہ کثیرالجہات ہے تو اسی کے ساتھ بعض ایسی سہولیات سے بھی فیضیاب ہے جو ہمارے آباء واجداد کو میسر نہیں تھیں۔ کمپیوٹر ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرلی جائے تو علوم کی تفہیم وتحصیل بہت آسان ہوجاتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ علماء کو قدرے اس کا احساس ہورہا ہے اور گو اس تعلق سے مطلوبہ تبدیلی کی رفتار سست ہے مگر اس کی ضرورت کا شدید احساس بہرحال پایا جاتا ہے جس کی قدر اور ہمت افزائی ہونی چاہئے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے، لیکن بعض اصحاب سمجھتے ہیں کہ سچ میں کچھ جھوٹ کی آمیزش ہوجائے گی اگر اسے کڑوے پن سے نہ کہا جائے۔ جرأت گفتار کے تعلق سے ہمارے ورثے میں روایات بھی کچھ ایسی ہی آئی ہیں کہ سچ وہی ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا جائے۔ بلاشبہہ اگر صورتحال ایسی ہوکہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو سچ سینہ تان کر ہی کہنا چاہئے۔ لیکن ہوشمندی سے کام لیا جائے تو افہام وتفہیم کی صورت بالعموم نکل آتی ہے۔ ہر عہد میں اس کی گنجائش رہی ہے اور ہمارے زمانے میں بھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک فرد کے مقابلے میں بادشاہ یا ریاست کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور امکان غالب یہی ہوتا ہے کہ شخصی آزادیاں اور مراعات سلب ہوجائیں۔ ایسی صورت میں علماء کے لیے عامۃ الناس کے حقوق کی حفاظت وپاسداری از حد ضروری ہوجاتی ہے۔
ہمارا عہد گلوبلائزیشن کا عہد ہے۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے جو علمی وتعلیمی بھی ہے اور ثقافتی بھی، یہ معاشی بھی ہے اور سیاسی بھی ہے۔ اس کے مضمرات بڑے دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ خاص طور سے معاشی وثقافتی گلوبلائزیشن ایک دودھاری تلوار کی طرح ہے۔ اس گلوبلائزیشن میں ہمارے لیے مواقع بھی ہیں اور چیلنجز بھی۔ اس گلوبلائزیشن کو سمجھے بغیر ہم اپنی موجودہ دنیا کو نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی وہ رول ادا کرسکتے ہیں جس کی ورثۃ الانبیاء علماء یعنی دانشورانِ کرام سے امید کی جاتی ہے۔

پروفیسر اشتیاق دانش، شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ہمدرد، نئی دہلی۔

 موبائیل نمبر:09871991729