خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہؐ نے نبوت کے بعد کی اپنی تیئس سالہ دنیوی زندگی میں انتھک جدو جہد،جاں گسل محنت اور ہزار ہا قربانیوں کے بعد اس دھرتی پر ایک ایسا نظام رحمت قائم کیا تھا جو عدل و انصاف کا علمبردار، مساوات انسانی کا داعی، امت مسلمہ کی صلاح و فلاح اور اس کے جملہ دنیوی و اخروی امور کا نگراں، نوع انسانی تک خدا کے پیغام کی تبلیغ کا ذمہ دار اور ساری انسانیت کو اللہ وحدہ لا شریک کی اطاعت و عبادت کی طرف دعوت دینے والا ادارہ تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہبری میں دنیا میں پہلی بار ایک ایسے مثالی ادارہ کا قیام عمل میں آیا جو اپنے اندرونی محاسن و کمالات اور اعلیٰ خوبیوں کی وجہ سے آئیڈیل اور مثالی قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء رضی اللہ عنہم نے اس ادارہ کی تمام تر قوت کو دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے استحکام و نفاذ میں معاون کی حیثیت سے استعمال کیا۔ آپؐ کے اس دنیا سے جانے کے بعد آپ کی امت اس نظام رحمت کو قائم رکھنے کی ذمہ دار تھی۔
خلافت راشدہ کے نام سے موسوم ادارہ اسی منہج پر ایک مدت تک چلتا رہا جس پر نبی آخرالزماں نے اسے چھوڑ ا تھا۔ بے شمار شعبوں میں غیر معمولی ترقی و توسیع ہوئی۔ خلافت راشدہ کے ہی عہد میں اسلام جزیرۃ العرب سے باہردور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ خلافت راشدہ کا یہ نظام آخر کار یزید بن معاویہؓ کی ولی عہدی کے ساتھ ختم ہوگیا اور اسکی جگہ ملوکیت یا با دشاہت نے لے لی۔
۱۰محرم الحرام ۶۱ ہجری میں اسلامی تاریخ کا انتہائی درد ناک واقعہ پیش آیا ۔یہ حادثہ سرور کونین کے نواسے سیدنا حضرت حسینؓ کی انتہائی بے دردانہ شہادت کا حادثہ تھا۔ اس واقعہ کو پیش آئے تقریباً 1372 سال کی ایک مدت دراز گزر چکی ہے۔ مگر اس کی المناک یادیں آج بھی زندہ ہیں۔ ہر سال محرم کے ابتدائی عشرہ میں شہادت حسینؒ کا درد اور اس کی کسک امت مسلمہ کے درمیان پائی جاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں اس حادثہ پر جتنا ماتم اور آہ و فغاں کیا گیا اور جتنے آنسو بہائے گئے شاید دوسرے کسی واقعہ کے حصے میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں آیا۔ آخر اس واقعہ میں ایسی کیا چیز تھی جس نے اسے حیات جاودانی سے سرفراز کیا ؟ اس سوال کے جواب میں واقعہ کی معنویت پوشیدہ ہے۔
سیدنا حسینؓ نے نظام مملکت اسلامیہ کو دوبارہ ان خطوط پر لانے کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کی جو خلافت راشدہ کا طرۂ امتیاز اور اس کی روح تھی۔ جن خطوط پر خلفاء راشدین نے اسلامی مملکت کا انتظام و انصرام کیا تھا۔ جب آپؓ نے اس روشن عہد کے بنیادی اور امتیازی خصوصیات کو مفقود یا ناپید ہوتے دیکھا یا کم از کم اپنی مومنانہ فہم و بصیرت سے اس کے ناپید ہونے کی ابتداء کا ادراک کرلیا تو اب آپ جیسے خاندان نبوت کے چشم و چراغ کے لیے اسے علی حالہ انگیز کرنا مناسب نہ تھا۔ آپؓ نے اس بگڑی ہوئی صورت کو صحیح رخ پر لانے کے لیے جسم وجان کی بازی لگا دی، اور اپنے خانوادے اور حمایتیوں کے ساتھ میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرماکر رہتی دنیا تک کے لیے ایک روشن اور تابناک مثال قائم کردی۔ آپؓ کی یہ شہادت اسلام کے حق حریت و آزادی کے لیے تھی، اسلام کے عادلانہ اور مبنی بر شورائیت نظام رحمت کو قائم کرنے کے لیے تھی۔ شخصی جبر و اکراہ کے استیصال اور قرآن و سنت کی بالا دستی کے لیے تھی۔ جس حکومت کے خلاف آپؓ نے اپنی جان عزیز کو داؤ پر لگایا وہ فی الواقع خلافت علی منہاج النبوۃ نہ تھی۔ انہی اسباب کا استقراء کرتے ہوئے مولانا مودودی رقمطراز ہیں:
’’… اسی لیے امام حسینؓ اس پر بیعت نہ کرسکے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کا خطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے، مگر انھوں نے اس عظیم خطرہ میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ قیمتی سرمایہ ہے، جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات… دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمی ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ بھی قربان کردینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ یہ تھے وہ بنیادی اسباب جس کی وجہ سے آپؓ نے بغیر کسی مصلحت ا ندیشی کے جان لڑا دی۔
سیدنا حسینؓ کی شہادت کا واقعہ محض ایک فرد کی شہادت کا واقعہ نہ تھا۔ مولانا آزاد اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت حسینؓ کا واقعہ کوئی شخصی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف اسلام کی تاریخ ہی سے نہیں بلکہ اسلام کی اصل حقیقت سے ہے۔ یعنی وہ حقیقت جس کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے ظہور ہوا تھا۔ اور وہ بتدریج ترقی کرکے حضرت عیسیؑ ٰ کی ذات تک پہنچ کر گم ہوگئی تھی۔ اس کو حضرت حسین نے اپنی سرفروشی سے مکمل کردیا۔ خاندان نبوت، دنیا کو آباد کرنے کے لیے ہمیشہ اجڑتا رہا، حضرت ابراہیم ؑ نے ہجرت کی، حضرت موسیؑ ٰ نے گھر بار چھوڑا اور نبوت محمدیؐ کے متبعین میں سے حضرت حسینؓ نے میدان کربلا کے اندر اس خانہ ویرانی کو مکمل کردیا۔ حضرت اسماعیل ؑ سے خاندان نبوت کا سلسلہ ملا ہوا ہے۔ انھوں نے ایک وادی ذی ذرع میں شدت تشنگی سے ایڑیاں رگڑی تھیں حضرت حسینؓ نے بھی میدان کربلا میں اس خاندانی روش کو زندہ کیا۔‘‘
اس عظیم الشان شہادت کی یاد نتیجہ خیز تبھی ہوسکتی ہے جب پوری امت کو اس شہادت کے پیچھے کارفرما مقاصد کا صحیح ادراک ہو اور جس عظیم ترین مقصد کے حصول کے لیے ایک نہیں بلکہ 72 جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا تھا ان کو حاصل کرنے کے لیے پوری امت آمادہ ہو، اور اس نظام صالحہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے جس کے لیے حضرت حسینؓ نے اپنی جان کو قربان کردیا تھا۔
قرآن کریم کی رو سے خلافت راشدہ کے علاوہ کوئی بھی نظام حکومت نہ کبھی جائز رہا ہے اور آگے نہ کبھی جائز ہوسکتا ہے۔ یزید کی ولی عہدی کے بعد سے امت مسلمہ اس نظام سے محروم ہوگئی۔ اور آج تک اس کی بازیافت نہیں ہوسکی ہے۔ ہر دور کے مسلمانوں پر خلافت الٰہی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنا فرض ہے۔ تاکہ وہ امانت جو نبی کریمؐنے اس دنیا سے جاتے وقت امت مسلمہ کو سونپی تھی اسے دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ نبی کریمؐ کی سچی جانشینی کا تبھی حق ادا ہوگا جب امت محمدیہ آپؐ کے قائم کردہ مثالی نظام کی بازیافت کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کردے۔ اور ہر شخص ،ظلم وجبر اور حریت و آزادی کے حق سے محروم کرنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان کے نزدیک یہ تصور بالکل واضح ہوگا کہ اسلام کا مقصد بادشاہت قائم کرنا نہیں بلکہ اس کی بیخ کنی ہے، اسلام کا مقصد خلافت الٰہی کا قیام ہے جس کے لیے اس کے پاس زندگی کے ہرشعبے کے لیے مکمل لائحہ عمل ہے۔ یہ حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ عیاں ہے اور علماء و مؤرخین کی جماعت اسے تسلیم بھی کرتی ہے کہ خلافت راشدہ کے علاوہ جو بھی نظام حکومت امت کے اندر قائم ہوا وہ بادشاہت یا ملوکیت تھی اور اسکے حکمراں دنیوی فرماں روا۔
کیا بحیثیت مجموعی پوری امت کے لیے محض اس کا اعتراف کافی ہے؟ یا یہ حقیقت ہم سے کچھ اور مطالبہ کرتی ہے۔ کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں جبکہ ہر اس شخصی مملکت کو برداشت کرنے کا جواز نہیں ہے جو انسانی آزادی و حریت اور عدل و انصاف کو پامال کرنے والی ہو۔ شورائیت کے بجائے جبر جس کی بنیاد ہو، امت کے مصالح سے زیادہ جسے اپنی حکومت کا استحکام اور اس کی جڑیں مضبوط کرنا ہو۔ اور ان مقاصد کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہوں، خواہ مسلمانوں کے خون سے بھی ہولی کیوں نہ کھیلنی پڑے۔ جبکہ اسلام جس خلافت الٰہی کے قیام کی بات کرتا ہے اس کا مقصد تحفظ دین اور اس کے احکام کا قیام و نفاذ ہے۔ کیا امت محمد یہ صرف اس اعتراف حقیقت سے اپنی اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے؟ خلافت کی بازیابی کے لیے پوری امت کو سر گرم عمل ہونے کی ضرورت ہے۔
سیدنا حسینؓ کی عظیم شہادت ہمیں ہر سال اپنی تاریخ کی طرف رجوع کرنے کا پیغام دیتی ہے جہاں ایک طرف ہم اس سے نصیحت حاصل کرسکتے ہیں وہیں ہمیں حرکت و عمل اور حوصلہ کا سامان بھی ملتا ہے۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اپنے روشن ماضی سے اپنا رشتہ مضبوط و مستحکم رکھے۔ تا کہ مستقبل کی حکمت عملی کے لیے ہمیں راہ نمائی مل سکے۔ وہ عہدِ روشن جس کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے اس کی خصوصیات کو ہمیں دوبارہ لوٹا نے کی ضرورت ہے۔ خلافت راشدہ کا نظام رشد و ہدایت کا مینارہ ہے۔ خلفاء راشد ین کی میراث ’’خلافت راشدہ‘‘ کے قیام کے لیے ہمیں سب سے پہلے اتحاد کی ضرورت ہے۔ ماہ محرم اتحاد بین المسلمین کی دعوت دیتا ہے۔ امت محمد یہ کا متحد ہونا صرف اس امت کے لیے ہی ناگزیر نہیں ہے بلکہ پوری نوع بشریت کے لیے ضروری ہے۔ ملی افتراق و انتشار نے امت کو جو نا قابل تلافی گزند پہنچائی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ دین مبین کا اولین مقصد مذاہب وملل، ذات پات اور دیگر تفریق کی بنیادوں کو مسمار کرکے تمام انسانیت کو ایک خداکی اطاعت و عبادت پر جمع کرنا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ نوع انسانیت کو اتحاد کا پیغام دینے والی امت شدید گروہی اختلافات کا شکار ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو حبل اللہ المتین کو مضبوطی سے تھامنے کی جا بجا تلقین کی ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے قرآن کریم نے ان کی تباہی و بربادی کے اسباب بیان کئے ہیں۔ ان اسباب میں تفریق کو بہت نمایاں حیثیت سے پیش کیا ہے۔
ایک مقام پر مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
’’ولا تکونوا من المشرکین فرقوا دینھم و کانوا شیعاً کل حزب بما لدیھم فرحون (الروم:۳۲)
امت مسلمہ کے فرزندو! تم مشرکین کی روش اختیارمت کرو جنھوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹولیوں میں بٹ گئے، ان کی صورتحال یہ ہے کہ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اس پر نازاں و فر حاں تھے۔‘‘
نئے سال کی صبح امت محمد یہ کے لیے تغییر احوال کا پیغام لے کر آئی ہے۔ ان اللہ لا یغیرما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم (الرعد)
امت کے احوال و کوائف میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مجموعی طور پر امت اپنے احوال کو تبدیل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ سیدنا حسینؓ کو امت محمدیہ کی جانب سے خراج عقیدت و تحسین کا سچا نذانہ یہی ہوسکتا ہے کہ پوری امت اس گوہر مقصود کی تلاش و جستجو کے لیے کھڑی ہوجائے جس کی خاطر آپ نے شہادت کی یہ جرأت مندانہ داستان رقم کی تھی۔ نبی کریمؐ اور خلفاء راشدین کے توسط سے جو متاع عزیز امت کو ملی تھی وہ درمیان راہ ہی میں لٹ گئی اس کی بازیابی کے لیے کھڑا ہونا امت کا فریضہ ہے۔ سیدنا حسینؓ کی زندگی دین حق کے لے جرأت و حق گوئی، شجاعت و بہادری، قربانی و جاں نثاری، اور صبر و استقلال کا بہترین نمونہ ہے۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کے اندر ان حسینی صفات کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ آپ سے عشق و محبت کی اصل کسوٹی یہی ہے۔