’’جناب میں ایک الجھن میں ہوں اس کا جواب چاہیے۔ صبح سے دیکھ رہا ہوں آپ لوگ کھانے میں ویج (سبزی) لے رہے ہیں اور ہم لوگ نان ویج (چکن) کھارہے ہیں، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سبزی کھاتے اور آپ لوگ چکن کا استعمال کرتے۔ میں نے دیکھا کہ لنچ میں شاید غلطی سے ایک ٹرے نان ویج کی آگئی تو آپ نے اسے واپس کردیا۔‘‘
مذکورہ احساس ایک وطنی ہم سفر ڈاکٹر اشوک سنگھ کا تھا جن سے حضرت نظام الدین۔ چنئی راجدھانی ایکسپریس میں سفر کے دوران دسمبر1997میں ملاقات ہوئی تھی۔ موصوف اعلیٰ تعلیم یافتہ کسی گورنمنٹ ہاسپٹل سے رٹائرڈ پنج شیل پارک نئی دہلی میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے، اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ راقم بھی اپنے دو احباب کے ساتھ چنئی جارہا تھا۔
میں نے ڈاکٹر اشوک کے سوال کا جواب دینے کے بجائے ان سے تعارف حاصل کرنے کے بعد کہا کہ سبزی یا گوشت کھانا ہر شخص کی اپنی پسند اور ناپسند پر منحصر ہے، اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایک شخص پوری زندگی گوشت نہ کھاتے ہوئے بھی ایک اچھا مسلمان ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر اشوک معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ٹرین میں ہمارے نان ویج استعمال نہ کرنے کی خاص وجہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آج تک ایسے مسلمان نہیں دیکھے ہیں جو نان ویج (گوشت) نہ کھاتے ہوں۔ جب ان کا تجسس زیادہ بڑھا تو میں نے سرسری طورپر بتایا کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے بلکہ ہم لوگ (مسلمان) گوشت کھانے میں بہت احتیاط کرتے ہیں۔ جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین نہیں ہوجاتا اسے ہاتھ نہیں لگاتے ہیں۔ مرا ہوا یا جھٹکے سے مارا گیا حلال جانور بھی جیسے بھیڑ، بکری اور مرغی وغیرہ نہیں کھاتے ہیں بلکہ اس کے لئے یہ شرط ہے کہ اسلامی طریقہ سے اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، کسی دیوی، دیوتا یا پیر فقیر کے نام پر ذبح کیا ہوا حلال جانور بھی ہمارے لئے جائز نہیں ہے بلکہ وہ حرام ہے۔ میں نے ذبح کے بارے میں بھی بتایا کہ اس طریقہ سے جانور کے جسم سے سارا خون نکل جاتا ہے جبکہ جھٹکے یا کسی اور طرح سے مارے گئے جانور سے خون کا اخراج نہیں ہوتا ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے ایسا گوشت کھانا انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ قرآن کریم نے آج سے قریب ڈیڑھ ہزار سال قبل مردار اور خون کو حرام قرار دے دیا تھا، اور طبی اعتبار سے اس کی مضرت میڈیکل سائنس سے بھی ثابت ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر اشوک بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے کہ میں میڈیکل سائنس کا طالب علم رہ چکا ہوں۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔ پھر اپنی بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم لوگ بھی جھٹکے کا گوشت نہیں کھائیں گے۔ ذبیحہ اور گوشت خوری کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے کہا کہ گوشت خوری کا الزام بلاوجہ مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے، جبکہ سچائی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہندو دلت اور آدی باسی بالخصوص شمالی ہند کی ریاستوں کے لوگ گوشت کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ بھارت کی قدیم تہذیب بھی اس دعوے کی گواہی دیتی ہے کہ یہاں کے عام باشندے اور سادھو سنت بھی گوشت بلاکراہیت بہت کثرت سے کھایا کرتے تھے۔
میں نے بتایا کہ اسلام نے گوشت اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کے بارے میں کچھ اصول وضوابط متعین کئے ہیں، جنھیں کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے بلاوجہ شکار کرنے یا جانوروں پر نشانہ بازی کرنے سے منع فرمایا ہے اور ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو کھیل اور تماشہ کے لیے کسی جانور پر نشانہ بازی کرتے ہیں، یا انہیں ہلاک کردیتے ہیں۔
طویل گفتگو کے بعد جب ڈاکٹر اشوک اور ان کے بچوں کے سوالات یا اشکالات ختم ہوئے تو میں نے بھی ان سے اپنی ایک الجھن کا تذکرہ کیا کہ میں دیکھ رہا ہوں آپ صبح سے کئی بار شراب پی چکے ہیں بلکہ شراب کی بوتل اپنی بیٹی کو بیگ سے نکالنے کے لیے کہتے ہیں اور ان بچوں کے سامنے پیتے ہیں۔ مہذب سماج میں اسے پسند نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔ آپ میڈیکل سائنس کے طالب علم رہ چکے ہیں اس لئے اس کے نقصانات سے بھی اچھی طرح واقف ہوں گے۔
آج ہمارے سماج میں جتنی برائیاں پائی جاتی ہیں اس کی تہہ میں شراب ہوتی ہے۔ اسلام نے اسے ام الخبائث یعنی تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے اور سختی سے اس پر پابندی عائد کی ہے۔ استعمال تو دور، اس کے خرید وفروخت اور تجارت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اشوک نے اپنے بارے میں صفائی دی کہ یہ شراب نہیں ہے، اس میں کسی طرح کا نشہ نہیں ہے۔ یہ فروٹ جوس کی طرح ہے۔ اس کا استعمال ہماری ضرورت یا مجبوری ہے۔ تاہم میں عہد کرتا ہوں اس کو بھی ترک کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔
ڈاکٹر اشوک اور ان کے بچوں سے اسلام کے عائلی سسٹم پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی بالخصوص خواتین کے بنیادی حقوق سے متعلق ان کی معلومات دور سے سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھیں، جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ البتہ انہوں نے اردو زبان اور مسلمانوں کے کھانوں کے اقسام اور کوالٹی کا دل کھول کر اعتراف کیا۔ دورانِ سفر میری طرف سے ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ممکنہ کوشش رہی۔ ان سے گفتگو کے دوران ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب بھی ان ذہنوں میں بہت سارے سوالات ہیں جن کے بارے میں وہ حقیقت سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں کاش ہم ایسے تمام بندگانِ خدا تک اسلام کی دعوت پہونچا سکیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔