خدمت خلق: ایک اہم فریضہ
سراج احمد فلاحی،نئی دہلی
خدمت خلق کا لفظ جب بھی ہماری زبانوں پرآتا ہے تو ذہن میں ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے کہ ایک کمیٹی ہو جس کے تحت غریبوں میں کچھ رقم تقسیم کر دی جائے ، کمبل بانٹ دیئے جائیں، خورودنوش کے سامان لوگوں کے لیے فراہم کر دیے جائیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ خدمت خلق کا بہت معمولی حصہ ہے ۔
خدمت خلق ایک جا مع تصورہے ۔اس کی گہرائی میں جا نے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ “خلق”کے اندر روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار کا اطلا ق ہوتا ہے اور ا ن سب کی حتی الامکان خدمت کرنا، ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ ان کے ساتھ بہتر سلو ک وبر تاؤکی ہدایت اللہ رب العزت نے بھی دی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی اس سلسلہ میں تاکید کرتی ہیں،دین میں خدمت خلق کے مقام کو سمجھنے سے اس کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
قرآن میں جگہ جگہ ایمان لانے والوں کے جن اہم صفا ت کا ذکر کیا گیا ہے اس میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ،یتیموں کی دیکھ بھا ل کرنا ،مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی شامل ہے ۔اور ان صفات کو نہ اپنانے پر بھڑکتی آگ کی وعید سنائی گئی ہے جس کا نقشہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃ۔إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِیْنِ۔فِیْ جَنَّاتٍ یَتَسَاء لُونَ۔عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ۔مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ۔قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْن۔وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ۔وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَاءِضِیْنَ۔وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔حَتَّی أَتَانَا الْیَقِیْنُ۔(المدثر: ۳۸ تا ۴۷)
ہر شخص اپنے کسب کیلے رہن ہے ،دائیں با زوں والے کے سوا ،جو جنتوں میں ہوں گے وہ مجروں سے پو چھیں گے؛تمہیں کیا چیزیں دوزخ میں لے گئی ؟وہ کہیں گے ہم نما ز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے مسکینوں کو کھانا نہیں کھلا تے تھے ،اور حق کے خلاف باتیں بنا نے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی با تیں بنا نے لگے تھے ،اور روزِ جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے ، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا ۔
اس آیت کریمہ میں دوزخ میں جانے والے اس کا سبب بتا تے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلا تے تھے، اس لئے ہما را ٹھکا نہ جہنم بنا ۔گویا نماز پڑھنا اور مسکینو ں کو کھانا کھلا نا یہ ایما ن کے عملی مظاہر ہیں۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت میں گزاری، آپ کی دعوت میں مخلوقات کی خدمت پر بہت زور ملتا ہے ۔قربان جائیے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جس نے عا لم انسانیت کی خدمت میں اپنی سا ری زندگی گزار دی اور ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔جب آپ نے پہلی اسلامی ریاست کی بنیا د رکھی اس وقت اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا: “افشواالسلام ،واطعمواالطعام وصلواالارحام وصلوا والناس نیام، تدخلوا الجنہ بسلام “۔(مسند احمد)
سلام کو عام کرو ،کھانا کھلاؤ ،صلہ رحمی کرو،راتوں کو قیام کرو ، اپنے اس رویے کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ،یہ بھی خدمت خلق کی ایک صورت ہے۔ گویا جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے سا تھ اچھا برتا ؤکیا جائے ،ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:” من لا یرحم لا یرحم”(بخاری ،کتاب الادب ) جو رحم نہیں کر تا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ہے ۔اس ارشاد میں نہایت مؤثر انداز میں مخلوق پر رحم کرنے اور انسانوں کے ساتھ رحمت و شفقت کا برتاؤ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔یہ اسلام کی رحمت عام ہے جس کی تعلیم رحمتہ للعالمین نے دی ہے ،انسان انسان ہونے کی حیثیت سے ہمدردی کا مستحق ہے،خواہ اس کا تعلق کسی قوم اور مذہب سے ہو، خداکی رحمت کے مستحق وہی لوگ ہیں جو اس کی مخلوق کے حق میں مہربان ہوتے ہیں ۔ لیکن جن کا برتاؤ مخلوق کے ساتھ ظالمانہ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں۔لہذا جو لوگ انسانیت کے رشتے کو کاٹیں گے اللہ تعالی ان سے اپنی رحمت کے رشتہ کو کا ٹے گا ۔
خدمت خلق مطلو ب بھی ہے اورمقصود بھی ہے۔ خرم مراد ؒ کہتے ہیں “:دین کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کوجہنم سے بچایا جائے۔اگرکسی کا گھر جل رہا ہو اور اس کو بچایا جائے تو یہ خدمت خلق ہے ، اور اگر موت کے بعد وہ آگ میں گرنے والا ہو اور اس کو بچایا جائے تو کیا یہ خدمت خلق نہیں ہے ؟یقیناًیہ بھی خدمت خلق ہے”۔گویا مومن کی پوری زندگی چاہے وہ دعوتی نوعیت کی ہو، امدادی نوعیت کی ہو ،خیر خواہانہ ہو سب کچھ اس خدمت کے زمرے میں آتا ہے ۔لیکن اس وقت امت کا سواد اعظم صرف مالی تعاون کو “خدمت خلق”سمجھتا ہے۔اس کو یہ نہیں معلوم کہ مالی تعاون ضروری تو ہے لیکن اگر ہم اس کے ساتھ انسانوں کی ابدی کامیابی میں تعاون نہ کریں ،ان کو آگ میں جلنے سے نہ روکیں تو ہم سے اس کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا، دریافت کیا جائے گا۔
ان آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ دین میں خدمت خلق کا کتنا جامع تصور موجود ہے۔اس کی عکاسی انسان کی پوری زندگی ،سوچ ،ذہن،دل ودماغ سے ہونی چاہیئے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ایک شعبہ قائم کر لے اور مطمئن ہو جائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔ہر صاحب ایمان کو دل کی گہرائیوں سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا وہ ان خدمات کو انجام دے رہا ہے۔
“خدمت خلق”کے لئے ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس پیسہ ہو ،بلکہ اس کے بغیر بھی آدمی پوری زندگی مخلوقات کی خدمت کر سکتا ہے۔خدمت خلق یہ بھی ہے کہ آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ایک آدمی مال سے خالی ہاتھ تو ہو سکتا ہے لیکن وہ دل سے دوسروں کا خیال رکھ سکتا ہے یہ بھی بہت بڑی خدمت ہے ۔آپ کی زبان سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے،جب بھی بولیں بھلی بات بولیں ،دوسروں کا برا نہ سوچیں،ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں،لوگوں سے مسکرا کر ملیں یہ سب انسانوں کی خدمت میں شامل ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ” مسلم وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
انسان کے لئے دوسروں پر اپنا مال خرچ کرنا بہت مشکل کا م ہوتا ہے کیونکہ اس سے اس کو شدید محبت ہوتی ہے،لیکن اگر انسان کو خدا پر پختہ یقین ہو تو وہ کبھی بھی خدا کی محبت پر مال کو ترجیح نہ دے گا،ایسی صورت میں اس کو اپنے رب کا وعدہ ہمیشہ یاد رہے گا “میرے راستے میں خرچ کرومیں اسے دو چند کرکے دوں گا ۔حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں کو خطاب کرتے ہوئے کیا ہی پیارا جملہ ارشاد فرمایاتھا :”اپنا مال خداوند کے پاس رکھو،کیونکہ انسان کا دل وہیں ہوتا ہے جہاں اس کا مال ہوتاہے”۔
مال کو جمع کر کے رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور مال جمع کر رکھنے والو ں کے لئے تبا ہی وبر با دی کا ذکر کیا گیا ہے ۔یہ انسانی ہمدردی کا بھی تقاضہ ہے کہ اپنے جیسے بے سہارا انسانوں پر اپنا مال خرچ کیا جائے۔اس کے لئے ضروری نہیں کہ آدمی بہت مالدار ہو ۔تھوڑا مال ہو تب بھی اس طرح کی خدمت انجام دی جاسکتی ہے ۔کیوں کہ اللہ ہر ایک کی استطاعت سے بخوبی واقف ہے۔ وہ دلوں کے راز جانتا ہے ۔اور اللہ کے نزدیک نیتوں ہی پر نیکیاں ہیں ۔ایک حدیث میں ہے “ان اللہ لا ینظرالی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم”اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے ، (مسلم :کتاب البر)
خدمت خلق کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی صلاحیت ،طا قت وقوت راہ خدا میں لگائے، اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور حالات کے لحاظ سے وہ بدلتی بھی رہتی ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اندھے کو راستہ نہیں ملتا،تم نے اسے راستہ بتا دیا تو یہ بھی خدمت ہے ۔راستے سے تکلیف دہ چیزکوہٹانا بھی صدقہ ہے ۔اس طرح کے بے شمار مواقع قدم قد م پر آتے رہتے ہیں ضرورت بس دل کی رضامندی کی ہے، نیت کی درستگی کی ہے ،اور اللہ پر پختہ ایمان کی ہے۔
قرآن کریم میں اجتماعی کامو ں کو ترجیح دی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امت کو مجتمع رہنے کی تا کید کی ہے ۔اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت کی نماز کو افضل قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب با تیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اگر خدمت خلق کا فریضہ بھی ایک نظم اور اجتماعیت کے ساتھ ہو تو وہ بھی نہایت اچھے طور سے انجام پائے گا ۔کیونکہ اجتماعی کاموں میں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جلداز جلد پورے ہوتے ہیں ،سسٹم اور نظم کے تحت ہوتے ہیں۔
نیکی اور خدمت کے بہت سارے کام ہیں ،اگر ان کی اہمیت ،فضیلت اور اس پر اللہ نے جو اجر رکھا ہے لوگوں کو معلوم ہو جائے تولوگ دل کھول کر خرچ کریں ۔لیکن یہ سارے کام تبھی درست اور باعث اجر وثواب ہوں گے جب آدمی کی نیت خالص ہو کوئی اور غرض وغایت نہ ہو ،کوئی دنیوی مفاد پیش نظر نہ ہو۔ انسان کو اس کے کام کا اجر وثواب صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب وہ کہے کہ:إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً۔ إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا یَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِیْرا (الدھر:۹،۱۰)ہم تو تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ کوئی شکریہ ،ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے ،جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔
اگر ہماری نیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو کچھ ہم خدمت کر تے ہیں ،کھانا کھلا تے ہیں ،لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں ،کسی کا دل نہیں دکھاتے یہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں نجات کے لئے ہے تواس پر اجر ہے اور دوسرے فوائد بھی کئی گنا حاصل ہوں گے ۔لیکن نیت یہ نہ ہو تو آپ بیٹھ کر بار بار اس بات کا رونا روتے رہیں کہ ہم نے اتنا کام کیا اس کے باوجود لوگ ہمیں نہیں مانتے، ہماری نہیں سنتے تو یہ سب چیزیں نیت کی خرابی کا نتیجہ ہیں ۔ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ یہ سارا کام جو ہم کر رہے ہیں یہ بندوں کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے ہے ،ہم اللہ کے بندے ہیں اورہم پریہ اللہ کا حق ہے۔ ایک لمبی حدیث میں اس کا بہت اچھا نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ بندے سے پو چھے گا کہ میں بھوکا تھا ،پیا سا تھا، بے لباس تھا توتو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ،پانی نہیں پلایا ،کپڑا نہیں پہنایا اور بندہ حیرت سے کہے گا یا اللہ توتو سب کا پرور دگار ہے تو کیسے بھوکا رہ سکتا ہے ،تو کیسے پیاسا رہ سکتا ہے تو بے لباس کیسے رہ سکتا ہے اس پر اللہ کہے گا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا ،پیاسا تھا، بے لباس تھا ،اگر تو اسے کھلاتا ،پلاتا ، کپڑے پہناتا تو آج اس کا اجر یہاں پاتا۔
خرم مرادؒ نے کتنی پیاری بات کہی ہے: ” خدمت خلق کا کام اس قدر اہمیت کاحامل ہے کہ جب ہم اس کا م کے ذریعے انسانیت کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح رحمت بن جائیں گے تو اس وقت ہمارے وہ خواب بھی پورے ہوں گے جو ہم دنیا میں دین کے غلبے اور اس کی اقامت کے لیے دیکھتے ہیں ۔ ان شاء اللہ”۔