تیرا پیکر سرِ منظر ہے نہ صورت تیری
پھر بھی ہر شے سے ہویدا ہے حقیقت تیری
یہ نبوت، یہ رسالت تو ہے رحمت تیری
ورنہ دیتی ہے ہر اک چیز شہادت تیری
جس میں شرکت ہو، وہ توحید کہاں ہوتی ہے
جس کو شرکت سے ہے نفرت، وہ ہے غیرت تیری
تیرا انکار اندھیروں کو جنم دیتا ہے
تیرے اثبات سے روشن ہے حکومت تیری
فلسفے نقش ہیں پھولوں کے سبک پتوں پر
ثبت ہے برگ گل ولالہ پہ عظمت تیری
تیرے ہونے کی خبر جب بھی سحر دیتی ہے
ہر شجر جھوم کے کرتا ہے عبادت تیری
فلسفی بیٹھ گئے عقل پہ تکیہ کرکے
تیرے اسرار سمجھ پائے نہ حکمت تیری
توُ تو دیتا ہے انہیں بھی جو ہیں باغی تیرے
’’منبع جود وسخا، عام ہے رحمت تیری‘‘
جس کو سائنس کہا کرتی ہے نیچر راشدؔ
میرا ایماں اسے کہتا ہے مشیّت تیری