اپنی بات ۔ اداریہ نومبر ۲۰۱۵

۳۰؍۳۱؍اکتوبر ویکم نومبر انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح کا نواں اجلاس عام مادرعلمی میں منعقد ہونے جارہا ہے۔اجلاس عام کے تعلق سے فارغین جامعہ کے اندر عجیب وغریب قسم کا شوق اور جذبہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہمارے اُن سینئر اور مصروف ترین ساتھیوں کو بھی اجلاس عام کو کامیاب بنانے میں اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے آپ دیکھ سکتے ہیں، جس طرح جونیئر اور قریبی سالوں میں جامعہ سے فارغ ہونے والے ساتھی،جو ابھی پوری طرح کارگہ حیات میں قدم نہیں رکھ سکے ہیں، اپنا متحرک اور فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ اجلاس عام کے موقع پر ملک وبیرون ملک سے فارغین کی ایک بڑی تعداد مادر علمی کا رُخ کرتی ہے، ملاقاتیں ہوتی ہیں، تبادلۂ خیالات ہوتے ہیں، ڈسکشن اور مباحثے ہوتے ہیں اور زمانہ طالب علمی کی یادیں ایک بار پھر تازہ ہوجاتی ہیں۔
انجمن طلبہ قدیم جامعۃ الفلاح اس لحاظ سے اپنے اندر ایک امتیازی شان رکھتی ہے کہ ملک کے مدارس اسلامیہ کے درمیان یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے، اور اپنی سرگرمیوں کے اعتبار سے اس کا اپنا ایک نمایاں کردار رہا ہے۔انجمن کے قیام کا مقصد بالکل واضح تھا، کہ مقاصد جامعہ کے حصول کے لیے طلبہ قدیم کو منظم کیا جائے اور ان کی صلاحیتوں کو مفید اور موثر بنانے کے لیے عملی قسم کی کوششیں کی جائیں، اور جامعہ کی تعمیر وترقی میں ذمہ داران جامعہ کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ چنانچہ انجمن، مادرعلمی کے تعلق سے، اپنے قیام کے وقت سے ہی سنجیدہ رہی ہے اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے کسی طرح کا دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے۔ اس چیز کا مادرعلمی کی جانب سے کھل کر اعتراف بھی کیا جاتا رہا ہے۔ نہ صرف مادرعلمی کے تعلق سے، بلکہ فارغین جامعہ کو مجتمع رکھنے اور ان کی صلاحیتوں کے ارتقاء کے لیے بھی انجمن کی جانب سے مختلف اقدامات ہوتے رہے ہیں۔
اس موقع پر جبکہ ملک وبیرون ملک سے فارغین جامعہ کی ایک بڑی تعداد کا مادرعلمی میں اجتماع ہورہا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر مادرعلمی کا ایک بے لاگ تجزیہ کیا جائے۔ حصولیابیوں پر بارگاہ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لایا جائے۔ کوتاہیوں اور کم زوریوں کا کھل کراعتراف کیا جائے، عملی قسم کی تدبیروں پر غوروفکر کیا جائے، اور اللہ رب العزت کے حضور اس کے لیے انفرادی واجتماعی دعا کا اہتمام کیا جائے۔
مادرعلمی کا تجزیہ کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا لازمی ہے کہ یہ ملک کے عام مدارس کی طرح ایک مدرسہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عظیم مشن اورایک عظیم تحریک کا حصہ ہے۔ اس کے مقاصد ملک کے عام مدارس کے مقاصد سے بہت ہی اعلیٰ اور بلند حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ‘‘ جیسے عظیم اور بلند مقصد کا تذکرہ کسی مدرسے کے مقاصد اور اہداف میں دیکھنے کو بمشکل ہی ملے گا۔ قرآن وسنت کا گہراعلم اور صحیح دینی بصیرت۔ وقت کے اہم مسائل پر نظر اور غیراسلامی افکارونظریات سے واقفیت۔ گروہی، جماعتی اور فقہی اختلافات سے بالا تر ہوکر وسعتِ قلب و نظر کے ساتھ معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے فریضے کی انجام دہی۔ دینی اور دنیوی تعلیم کے بہترین امتزاج اور جامعہ کی اساس سے ہم آہنگ نصاب تعلیم کی تیاری۔ اسلام کی خدمت کے لیے دورجدید کے تقاضوں کے مطابق فکری، علمی اور تحقیقی مواد کی فراہمی جیسے انقلابی اور عملی قسم کے مقاصد مادرعلمی کا طرۂ امتیاز ہیں۔ چنانچہ مادرعلمی کا تجزیہ کرتے وقت اور فارغین جامعہ کی خدمات پر گفتگو کے دوران جامعہ کا عام مدارس دینیہ سے موازنہ کرنا، یقیناًان عظیم مقاصد اور اہداف کی حق تلفی ہوگی۔
مادرعلمی کس حد تک اپنے ہدف کو پاسکی ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک بہت ہی مضبوط پیمانہ فارغین جامعہ کی خدمات ہوسکتی ہیں کہ وہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر احیائے دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کی عظیم جدوجہد میں کس حد تک اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ الحمدللہ فارغین جامعہ اس وقت ملک وبیرون ملک کے مختلف اداروں میں اور مختلف میدان ہائے کار میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان تمام کی تفصیلات اکٹھا کرنے، اور ان کی روشنی میں اپنی حصولیابیوں کا تجزیہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس شمارے میں مولانا محمد اسماعیل فلاحی حفظہ اللہ ورعاہ نے بعض پہلووں سے فارغین جامعہ کی خدمات کو یکجا کرنے کی اچھی کوشش کی ہے، لیکن بہرحال یہ ایک ابتدائی قسم کی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے، اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس جائزہ کا ایک اور بہت ہی اہم پیمانہ مادرعلمی کا موجودہ نصاب تعلیم، اساتذہ کا علمی وذہنی معیار، طلبہ کی اخلاقی صورتحال اور بحیثیت مجموعی وہاں کا تعلیمی ماحول ہے۔ان امور کا تجزیہ نہ تو اس تحریر میں کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی ایک دو دن کی رواروی میں یہ ممکن ہے، بلکہ اس کے لیے ٹھوس اور منظم کوششیں درکار ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ ذمہ داران جامعہ بھی اس سلسلے میں فکرمند ہیں، گزشتہ دنوں جامعہ کی مجلس شوری کا خصوصی اجلاس اس ضمن میں ایک اچھی پیش رفت ہے، امید کہ یہ سلسلہ آگے بڑھایا جائے گا، اور اس میں ذمہ داران جامعہ کے ساتھ ساتھ فارغین جامعہ بھی اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں گے، واللہ ولی التوفیق
(ابوالاعلی سید سبحانی)